1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں بین الاقوامی تھیئٹر میلہ، نصیر الدین شاہ مرکز نگاہ

شادی خان سیف، کراچی7 مارچ 2014

کراچی میں ان دنوں بین الاقوامی تھیئٹر میلہ سجا ہوا ہے، جس میں بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ اور جرمنی کے فن کار جلوہ گر ہیں۔ اس میلے میں نامور بھارتی تھیئٹر آرٹسٹ نصیر الدین شاہ بالخصوص شائقین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BLw1
تصویر: DW/S. Khan Saif

مغلیہ طرز تعمیر کی شاہکار ہندو جم خانہ کی تاریخی عمارت میں، جس میں ایک عرصے سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس قائم ہے، ان دنوں خوب رونق ہے۔ چار مارچ سے شروع ہونے والے بین الاقوامی تھیئٹر میلے کے سلسلے میں اٹھائیس مارچ تک ہر شام ہی شائقین کو ان کے ذوق کے مطابق کچھ نہ کچھ میسر آتا رہے گا۔ اس ادارے سے وابستہ ڈائریکٹر زین احمد کے بقول لگاتار چوبیس دنوں تک فن کار شائقین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔

اس سلسلے میں روایتی تھیئٹر ڈراموں کے ساتھ ساتھ بیانیہ ڈرامہ اور داستان گوئی کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ یہ سب NAPA میں پرفارمنگ آرٹس کی درس و تدریس کے نو برس مکمل ہونے کے جشن کا حصہ ہیں۔

پڑوسی ملک بھارت سے فن کاروں کی دو ٹولیاں اس میلے میں شریک ہیں، ایک کی قیادت قدآور فن کار نصیر الدین شاہ کر رہے ہیں جبکہ دوسرا ٹولا وہاں کے نامی گرامی نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے فن کاروں پر مشتمل ہے۔


نصیر الدین شاہ نے پاکستانی تھیئٹر فن کاروں کے ساتھ بیٹھکوں میں ان کی تربیت کا کام بھی کیا۔ میلے سے قبل ایک شام ناپا کے مرکزی تھیئٹر ہال میں خطاب کرتے ہوئے نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں فلم، ٹی وی اور تھیئٹر میں تفریح کے نام پر انتہائی غیر معیاری مضامین پر مبنی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور اب لوگ بھی بقول نصیر الدین شاہ کے اس سستی تفریح سے جلد خوش ہوجاتے ہیں۔ اردو، انگریزی یا ہندی کے برعکس علاقائی زبانوں میں اُن کی تہذیب و ثقافت کے مطابق کہانیاں لکھنے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے نصیر الدین شاہ نے کہا، ’’ضرورت ہے نوجوان رائٹرز کی جو اپنی زندگی کی سچائی کے بارے میں لکھنے کی کوشش کریں، منورنجن (تفریح) کرنا ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اپنے زمانے کو ریکارڈ پر سچائی سے رکھنا ایک ذمہ داری ہے۔‘‘

نصیر الدین شاہ گزشتہ قریب پینتالیس برسوں سے فن کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں
نصیر الدین شاہ گزشتہ قریب پینتالیس برسوں سے فن کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیںتصویر: Farjad Nabi

پچاس کی دہائی میں بھارتی ریاست اُتر پردیش میں جنم لینے والے نصیر الدین شاہ گزشتہ قریب پینتالیس برسوں سے فن کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول جن قریب ڈھائی سو فلموں میں انہوں نے کام کیا ہے، ان میں سے ایک سو غیر معیاری، اتنی ہی فلمیں کسی حد تک مناسب جبکہ محض پانچ انتہائی بہترین تھیں۔

ناپا کے بین الاقوامی تھیئٹر میلے میں نصیرالدین شاہ اپنی بیگم رتنا شاہ کے ہمراہ ایک داستان بیان کریں گی۔ یہ داستان اردو زبان کی مشہور زمانہ بھارتی کہانی نویس عصمت چغتائی سے متعلق ہے۔

نصیرالدین شاہ کی حالیہ فلم ڈیڑھ عشقیہ پاکستان کے چنیدہ سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی، جس میں ان کی مزاحیہ اداکاری سے سینما ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ خوب محظوظ ہوئے۔ شاہ نے پاک بھارت مشترکہ فلم و تھیئٹر کی کاوشوں سے متعلق سوال کے جواب میں انتہائی برجستہ انداز میں کہا کہ ان کی کراچی میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس نظریے کے حامی ہیں، ’’لوگوں کا باہمی رابطہ بہت ضروری ہے، مل کر کام کرنا بہت ضروری ہے، ہمیں دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے دونوں طرف سے مگر جو زہر پھیلایا جا رہا ہے ہمیں اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھنا ہوگی۔‘‘

نصیر الدین شاہ کو اپنے درمیان دیکھ کر تھیئٹر سیکھنے والے نئے فن کار انتہائی پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ ناپا کے منتظمین اس بین الاقوامی تھیئٹر میلے کے کامیاب انعقاد پر خاصے خوش ہیں اور مستقبل میں اس سے بڑھ کر مزید بڑے پیمانے پر فن و ادب کے فروغ کی سرگرمیاں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔