’کراچی شہر وزیرستان بنتا جا رہا ہے‘
8 اپریل 2012گزشتہ چار برسوں میں ملک کے دیگر شہروں میں اسلامی انتہا پسندوں کی کارروائیوں سے تو یہ شہر قدرے بچا رہا مگر اندرونی طور پر فرقہ وارانہ اور لسانی تنازعات کے باعث اس شہر کو بھاری جانی اور مالی نقصانات کا سامنا رہا۔ گزشتہ برس کراچی میں لسانی اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور دیگر خونریز واقعات میں 1800 افراد ہلاک ہوئے تاہم رواں برس کے آغاز سے اب تک اس شہر میں تین سو سے زائد افراد مختلف پُر تشدد واقعات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ان خونریز واقعات کی وجہ منشیات، بھتے، اسلحے اور لینڈ گریبنگ کی مافیا کے درمیان جاری جھگڑے ہیں، جن کے سلسلے میں سرگرم عمل گروہوں کو مبصرین کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
کراچی میں لسانی اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی کسی بھی ہلاکت کے بعد پورا شہر بند کر دیا جاتا ہے اور کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق کراچی میں اب یہ معمول کی بات ہے کہ کسی پُر تشدد واقعے کے اگلے روز تمام دفاتر، اسکول اور کاروباری ادارے بند رہیں۔
کراچی مارکیٹ الائنس کے چیئرمین عتیق میر کے مطابق گزشتہ ہفتے کراچی شہر مسلسل چھ روز بند رہا۔ ’’کراچی میں گزشتہ ہفتے فائرنگ کے مختلف واقعات میں 24 افراد کی ہلاکت کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (کراچی کی بڑی سیاسی جماعت) کی اپیل پر ایک یوم سوگ بھی منایا گیا۔‘‘
عتیق نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کراچی کے مختلف کاروباری اداروں کو 20 بلین روپے (220 ملین ڈالر) کا نقصان برداشت کرنا پڑا جبکہ صنعتی اداروں کو 45 بلین روپے ( 495 ملین ڈالر) کا مالی نقصان ہوا۔‘‘
کراچی ملکی جی ڈی پی ( مجموعی قومی پیداوار) میں 42 فیصد حصہ ملاتا ہے، ٹیکس کی مد میں ملک بھر سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 70 فیصد جبکہ سیلز ٹیس کا 62 فیصد کراچی سے ہی حاصل ہوتا ہے تاہم عتیق میر نے کراچی کی صورت حال کو ملک کے شمال مغربی علاقے سے مماثل قرار دیتے ہوئے کہا، ’کراچی ایک شہری وزیرستان بنتا جا رہا ہے، جہاں حکومت اپنی عمل داری کھو چکی ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کراچی سیاسی اور لسانی اعتبار سے اب جغرافیائی طور پر کئی حصوں میں بٹ چکا ہے، جہاں مسلح مافیا گروہ حکومت کرتے ہیں اور عملی طور پر پولیس یا سکیورٹی فورسز کی کوئی عمل داری موجود نہیں۔
at/aa (AFP, Reuters)