کراچی: آٹھ سو ہلاکتیں اور حکومتی دعوے
6 اگست 2011پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کہلانے والے اس بندرگاہی شہر میں امن عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش ہوچکی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری خون خرابے کو تنظیمی، سیاسی، لسانی، فرقہ ورانہ اور گروہی تصادم کے نام تو دیے جا رہے ہیں مگر اس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ گزشتہ روز شہر میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں پاکستان کے وزیر داخلہ نے وعدہ کیا کہ اب تک حراست میں لیے گئے شرپسندوں کو میڈیا کے روبرو پیش کیا جائے گا۔
رحمان ملک نے اس سے قبل ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں امن عامہ سے متعلق اداروں کے افسران اور سندھ کابینہ کے عہدیداران شریک تھے۔ وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ مجرمان کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہوگی اور کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس موقع پر سندھ کے وزیر داخلہ منطور وسان نے بتایا کہ وفاق کی مدد سے کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں امن کے قیام کی تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں۔
پاکستان میں قائم انسانی حقوق کےکمیشن کے مطابق شہر میں جاری بدامنی نے محض جولائی کے دوران 300 لوگوں کی جان لی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے سے بات چیت میں کمیشن کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے بتایا کہ 1995ء کے بعد رواں سال شہر کے لیے خونریز ترین سال رہا ہے۔ 16 برس قبل کی بدامنی میں سات ماہ کے دوران قریب 900 شہری مارے گئے تھے۔
اس سے قبل HRCP نے رواں ماہ کی یکم تاریخ کو شہر کی صورتحال کے پس پردہ عوامل سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق شہر ہر اعتبار سے بڑا ہوتا جارہا ہے مگر ناقص انتظامی امور کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہر میں کئی طرز کے مافیا سرگرم ہیں جو لاء اینڈ آرڈر کے فقدان کا فائدہ تو اٹھا رہے ہیں مگر وہ شہر میں ہورہے خون خرابے کے مرکزی کردار نہیں۔
دریں اثنا صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو فی الحال شہر میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں نہیں سونپی گئی ہیں۔ ان کے بقول شہر میں موجود ایف سی کے عملے کو محض ضرورت پڑنے طلب کیا جائے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ