کامن ویلتھ گیمز: بچوں سے جمسانی مشقت بھی
25 ستمبر 2010انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کے حسن و نکھار کے لئے وہاں شجر کاری سمیت متعدد دیگر کاموں میں بچے اپنے والدین کے ہمراہ مشقت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مزدوری کرنے والے یہ بچے فٹ پاتھوں کی مرمت جیسے انتہائی مشقت کے کام میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔
نئی دہلی میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کو عالمی توجہ اس وقت حاصل ہوئی، جب برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے اپنے صفحہء اول پر وہاں ایک بچےکو مشقت کرتے ہوئے دکھایا۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والا بچہ نئی دہلی کے ایک مرکزی سٹیڈیم میں نشستوں کی مرمت کے کام میں مصروف تھا۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے اس بچے کی عمر بیان نہیں کی۔
نئی دہلی میں حکام کا موقف ہےکہ تصویر میں دکھایا جانے والا بچہ دراصل ایک نوجوان ہے۔ دوسری جانب حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تصویر سٹیڈیم میں کس طرح لی گئی جبکہ وہاں اس وقت صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کی بھارتی انجمنوں کا موقف ہے کہ انہیں بچوں سے جسمانی مشقت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ادارے AFP نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں کھیلوں کے دولت مشترکہ مقابلوں کے انعقاد کی تیاریوں کے لئے بھارتی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر بچوں کو بھرتی کیا گیا۔
اس خبر رساں ادارے نے متعدد بچوں کے انٹرویو بھی جاری کئے ہیں۔ ان میں مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ سُدھا نامی بچی بھی شامل ہے۔ اس بچی کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ ایک برس سے فٹ پاتھ پر سو رہی ہے جبکہ اسے نئی دہلی کے مرکزی حصے میں تعمیراتی کام کرنے کے 130 روپے (تین ڈالر سے بھی کم) بطور اجرت دئے جاتے ہیں۔
دس سالہ رنبیر شرما بھی مزدوری کے لئے مدھیہ پردیش سے نئی دہلی آنے والے ایک خاندان کا بچہ ہے۔ اس بچے کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے فٹ پاتھ کی مرمت کے کاموں میں شریک ہے۔
تیرہ سالہ اشوک منی اپنے خاندان کے ہمراہ نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں پھول لگانے کے کام میں مصروف ہے۔ اس فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اس وقت نئی دہلی میں جگہ جگہ معصوم بچوں کو مشقتی کاموں میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھارتی غیر سرکاری تنظیمیں اس امر پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ حکومتی موقف کی حامی دکھائی دیتی ہیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک