1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کارکردگی سے ناقدین کو خاموش کریں: یونس خان

30 اکتوبر 2009

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان یونس خان کا کہنا ہے کہ کپتانوں کو ڈینیئل ویٹوری کی طرح کے اختیارات سونپے جانا ایک اچھی روایت ہے۔

https://p.dw.com/p/KJHo
تصویر: AP

نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں کپتان ڈینئیل ویٹوری کو سلیکٹر بنانے کے ساتھ بر طرف کیے جانے والے اینڈی مولز کی جگہ کوچنگ کی بھی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ تاہم اس وقت کئی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا کہ جان رائٹ کو نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کیا جانا چاہیے۔

متحدہ عرب امارات روانگی سے قبل ڈوئچے ویلے اُردو سروس کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی کپتان یونس خان کا کہنا تھا کہ ویٹوری کو تمام اختیارات ملنا ایک اچھی بات ہے۔ ماضی قریب میں شہرہ آفاق لیگ اسپنر شین وارن نے بھی کپتانی کے ساتھ کوچنگ اور دیگر معاملات خود سنبھال کر راجھستان رائلز کو بھارتی کرکٹ لیگ ’آئی پی ایل‘ میں کامیابی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

یونس خان، جو خود بھی شین وارن کی قیادت میں ’آئی پی ایل‘ کا اولین ٹائٹل جیتنے والی راجھستان رائلز کے رکن تھے، کہا کہ ویٹوری اور شین وارن کی طرح با اختیار ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کپتان اپنی مرضی سے ٹیم کی ضرورت کے مطابق اہم فیصلے لینے کی پوزیشن میں آجاتا ہے، جو کامیابی کے لئے بے حد اہم ہے۔

Younis Khan Kapitän der pakistanischen Cricket Nationalmannschaft
یونس خان کے مطابق سلیکشن،کوچنگ اور قیادت کی باگ ڈور ایک ہی شخص کے پاس ہونے سے کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہےتصویر: AP

منگل تین نومبر سے متحدہ عرب امارات میں نیوزی لینڈ کے خلاف شروع ہونے والی ون ڈے سیریز میں یونس خان پاکستانی ٹیم کو ’وائٹ واش‘ یعنی تمام میچوں میں جیت کے لئے ’فیورٹ‘ قرار دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پاکستانی کپتان نے کہا کہ دونوں ٹیموں میں اعلیٰ درجے کے اسپنرز کی موجودگی سے یہ سیریز ’ففٹی ففٹی‘ پر ہی شروع ہوگی۔ ’’ابو ظہبی اور دبئی کی پچز پر ہمیں شاہد آفریدی ، سعید اجمل اور شعیب ملک کے ہوتے ہوئے جو’ایڈوانٹج‘ مل سکتا ہے وہی ویٹوری اور نیتھن میکولم جیسے اسپن بولرز کی وجہ سے حریف ٹیم کو بھی حاصل ہے۔ کامیابی میچ والے دن بہتر کھیلنے والوں کے قدم چومے گی۔‘‘

یونس خان نے مزید کہا کہ نیوزی لینڈ کا اب شین بانڈ ، برینڈن میکولم یا کسی ایک کھلاڑی پر دارو مدار نہیں بلکہ وہ یکجا ہوکر ایک ٹیم بن کر اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔ خان نے امید ظاہر کی کہ اگر پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کے عین مطابق کھیل پیش کیا، تو اچھا مقابلے ہوں گے۔

نوجوان اور ان فارم اوپنر خالد لطیف کو کھلانے کا عندیہ دیتے ہوئے خان نے کہا: ’’ہم گز شتہ دو سال سے نان ریگولر اوپنرز کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اسکواڈ میں تین مستنداوپنرز کی شمولیت کے بعد اب نان ریگولر افتتاحی بیٹسمین کو کھلانے کی کوئی منطق نہیں رہی۔ یہ ہماری ہوم سیریز ہے، جس میں نوجوان کھلاڑیوں کو آزمایا جائے گا۔‘‘

متنازعہ گیند باز محمد آصف کے بارے میں ایک سوال پر خان کا کہنا تھا کہ آصف جیسے صف اول کے کھلاڑی کی کمی ہر ٹیم کو محسوس ہوتی ہے مگر ٹیم نے گز شتہ تیرہ ماہ میں ایک کے سوائے تمام میچ اسکے بغیر ہی کھیلے ہیں۔’’آصف اَمارات میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہی زندگی ہے اور بین الاقوامی کرکٹ میں ایسے حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔‘‘

اس سال خان نے پندرہ ون ڈے میچوں میں صرف دو بار 50کا ہندسہ عبور کیا ہے۔ کیا کپتانی کے بوجھ سے ان کی اپنی کارکردگی متاثر ہورہی ہے؟ یونس خان نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ قیادت ملنے کے بعد انہیں اپنی بیٹنگ کی بجائے دیگر معاملات پر زیادہ توجہ دینا پڑی تاہم انہیں اسکا کوئی ملال نہیں ہے۔’’ایک تو میری کپتانی میں قومی ٹیم کو کچھ اہم کامیابیاں ملیں اور دوسرا میں چار برس سے حالیہ چیمپئنز ٹرافی تک ون ڈے رینکنگ کی ٹاپ ٹوئنٹی فہرست میں شامل رہا۔ گز شتہ برس میں نے پاکستان کی طرف سے ٹاپ کیا تھا۔ اس وقت بھی میں خود کو آﺅٹ آف فارم نہیں سمجھتا کیونکہ چیمپئنز ٹرافی میں ہر بار 20تا 25 رنز بنانے کے بعد آﺅٹ ہوتا رہا ہوں۔ مجھے صرف اچھے آغاز کو بڑی اننگز میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور میں اس سال کا اچھا اختتام کرنے کا متمنی ہوں تاکہ رینکنگ میں دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام پا سکوں۔‘‘

حالیہ دنوں میں ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ اختلافات، الزامات اور خود اپنے استعفے سے ہنگامہ خیز واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے یونس خان نے کہا کہ آف دی فیلڈ واقعات کی وجہ سے انہیں کافی مسائل کا سامنا رہا ہے۔’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب میڈیا کا کیا دھرا تھا یا کچھ اور۔‘‘

Cricket - Shahid Afridi
شاہد خان آفریدی ٹونئٹی ٹونئٹی کرکٹ میں ٹیم کے کپتان ہیںتصویر: AP

پاکستانی کپتان نے اپنے ساتھیوں کو ذرائع ابلاغ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک کھلاڑی کے لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ میدان میں کھیلے اور چپ چاپ اپنی کارکردگی سے ناقدین کا جواب دے۔‘‘خان نے اعتراف کیا کہ کھلاڑیوں اور مینیجمنٹ کے حوالے سے مسائل سامنے آئے، جن سے ٹیم اور خود اُن کی توجہ کرکٹ سے ہٹی رہی۔

’کرکٹ میں تخریب کاری اچھی بات نہیں‘

یونس خان نے کہا کہ جس طرح تخریب کاری سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے، مہنگائی اور بے روز گاری جیسے مسائل بڑھے ہیں، ٹھیک اسی طرح کرکٹ میں بھی توڑ پھوڑ سے نقصان ہوتا ہے۔’’میں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دئے تھے لیکن اس ضمن میں جس طرح قوم اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی آواز بلند کی، مجھے حوصلہ ملا۔ یہاں تک کہ ایسے معصوم بچے، جنہیں استعفٰے کا مطلب بھی معلوم نہیں ہو گا، میرے پاس آئے اور اسے واپس لینے کے لئے کہتے رہے۔ اس سے میری سوچ ہی بدل گئی اور مجھے اچھی کارکردگی کے لئے اور زیادہ تحریک ملی۔‘‘

یونس خان نے کہا کہ ساتھی کھلاڑیوں کے مطالبات جیسے فلاں پوزیشن پر بیٹنگ، فیلڈنگ اور بوﺅلنگ کرنے جیسے ہیں۔ ہماری جائیداد کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اب اس سارے منظر نامے میں کم ازکم سب کچھ کھل کر تو سامنے آگیا ہےکہ ٹیم ،کپتان اور قوم کیا چاہتے ہیں۔‘‘

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: گوہر نذیر گیلانی