1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کارٹونسٹ جو المیوں سے بھی مزاح کا عنصر نکال لیتا ہے

ارسلان خالد25 جولائی 2013

ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو سے متعلق خبروں میں زیادہ تر قتل و غارت گری، جنسی زیادتی اور نسلی تعصب کا ہی ذکرہوتا ہے۔ ان واقعات پر کسی کو بھی ہنسی نہیں آسکتی۔ ایک کارٹونسٹ ان المیوں میں بھی مزاح کا عنصر تلاش کر لیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19EFE
تصویر: DWJN

ان کا فرضی نام کیش ہے جس کا انتخاب انہوں نے 1992ء میں آمر موبوتوسیسے سیکو کے دور میں اپنی شناخت چھپانے کے لیے کیا تھا۔ وہ "le potential" نامی ایک اخبار کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگوکے دارالحکومت کنشاسا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔کیش کہتے ہیں’’میں خبریں لے کر انہیں اپنے انداز میں دوبارہ سے بناتا ہوں۔ ہم اس پرگفتگو کرتے ہیں پھر صحافی اسے خوبصورت بناتے ہیں۔ میں اپنے کارٹون میں خبروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہوں لیکن ان کی اصل روح کو برقرار رکھتا ہوں‘‘۔

1996ء سے 2003ء کے دوران یکے بعد دیگرے ہونے والی جنگوں نے ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کو ویران کر دیا تھا جس کی وجہ سے باغیوں نے وہاں اپنا جال بچھا لیا اور وہ آج بھی وہاں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی امن فورس بھی بے گناہ شہریوں کے قتل، کمسن بچوں کی فوج میں زبردستی بھرتی اور جنسی زیادتی جیسے واقعات کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو دنیا بھر میں "جنسی زیادتی کے دارالحکومت " کا بھی خطاب دیا جا چکا ہے۔

کانگو میں عرصہ دراز سے جاری بدامنی کا ایک منظر
کانگو میں عرصہ دراز سے جاری بدامنی کا ایک منظرتصویر: Phil Moore/AFP/Getty Images

کیش اپنے ملک کی اسی افسوسناک حقیقت پر ہر روز کام کرتے ہیں۔ ان کے ایک کارٹون میں دکھایا گیا ہےکہ اقوام متحدہ کا ایک امن فوجی ایک کمسن لڑکی سے سوال پوچھتا ہے ’’ تم بڑے ہوکر کیا بننا چاہتی ہو؟ جس پر وہ لڑکی اسے بھڑکیلے انداز میں جواب دیتی ہے، کچھ بھی۔۔۔ لیکن جنسی زیادتی کا شکار نہیں‘‘۔

اسی طرح ان کے ایک اور کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو میں صحافت کتنا مشکل پیشہ ہے۔’’ ایک سگار پیتا کوٹ پتلون میں ملبوس آدمی ایک ریڈیو رپورٹر سے پوچھتا ہے، تمہیں معلومات چاہیں؟ تمہیں سیدھا اس راستے پر جانا ہو گا ‘‘۔ جس طرف وہ اشارہ کرتا ہے وہ مگرمچھوں سے بھرا ہوا ایک تالاب ہے۔

کیش ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کے شمال مشرقی علاقے " بینی " میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی تعلیم فائن آرٹس اسکول کنشاتا سے حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کیرئر کا آغاز لیجنڈ گلوکار باب مارلے کی موت کے وقت ہوا۔ یہ سن 1981 کی بات ہے ہر کوئی اپنی ٹی شرت پر باب مارلے کی تصویر بنوانا چاہتا تھا۔’’میں ان کے لیے تصویر بناتا اور پیسے لیتا۔ جب میرے والد نے میرے پاس اتنے پیسے دیکھے تو انہوں نے سوچا کہ شاید میں چور بن گیا ہوں‘‘۔ کیش کا کہنا ہے ’’میں ٹیلی وژن دیکھتے ہوئے پینسل اپنے ہاتھ میں رکھتا اور تصاویر بناتا رہتا تھا اور یوں میں نے تجربے سے سیکھا ‘‘۔

کیش شادی شدہ ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدن 750 یورو ہے جو کہ کانگو کی کم ترین آمدن سے کہیں زیادہ ہے۔ ’’مجھے آج تک کسی نے دھمکی نہیں دی۔ جب بھی میری اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کروائی جاتی ہے تو وہ میرے ساتھ بہت اچھے انداز سے پیش آتے ہیں لیکن مجھے علم ہے کہ میرے جانے کے بعد وہ مجھے برا کہتے ہیں‘‘۔