1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاروں کی بہتات سے چین کا دَم گھٹتا ہوا

30 اپریل 2012

کار ساز بین الاقوامی ادارے، جن میں جرمن ادارے بھی شامل ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے چین میں اچھا کاروبار کر رہے ہیں تاہم چین میں کاروں کی بہتات سے بیجنگ جیسے شہروں کو مسلسل دھوئیں اور ٹریفک جام جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/14n7U
تصویر: picture-alliance/ dpa

چینی دارالحکومت بیجنگ کی چھ لین والی رِنگ روڈز پر روزانہ ٹریفک رکا ہوا نظر آتا ہے اور ہزاروں کاریں چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ اِن سے نکلنے والا سلیٹی رنگ کا کثیف دھواں مسلسل شہر کے اوپر فضا میں تیرتا رہتا ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران بیجنگ میں کاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اِس شہر کی سڑکوں پر روزانہ پانچ ملین سے بھی زیادہ کاریں رواں دواں نظر آتی ہیں اور یہ تعداد پانچ سال پہلے کے مقابلے میں دگنی ہے۔ مزید چند برسوں میں یہ تعداد چھ یا سات ملین تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ایک نوجوان چینی خاتون نے سرد آہ بھرتے ہوئے بتایا:’’سیدھی سی بات یہ ہے کہ کاروں کی تعداد ہے ہی بہت زیادہ اور سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہمیں آخر کار ٹریفک کے مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہی ہو گا۔‘‘

بیجنگ کے شہریوں کو مسلسل دھوئیں کا سامنا رہتا ہے
بیجنگ کے شہریوں کو مسلسل دھوئیں کا سامنا رہتا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

تاہم یہ حل تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ نئے لائسنس جاری کرنے کا ماہانہ سلسلہ پہلے ہی محدود بنایا جا چکا ہے۔ اِس کے علاوہ بیجنگ کے ہر کار ڈرائیور کو ہفتے میں کم از کم ایک دن اپنی کار گھر پر چھوڑنا پڑتی ہے۔ اِس کا فیصلہ کار کی نمبر پلیٹ پر درج آخری ہندسوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ بیجنگ کے زیر زمین ریلوے نظام میں توسیع کا کام بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ تاہم اِن میں سے کوئی بھی اقدام ٹریفک جام کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا۔

بیجنگ کے ٹریفک کے شعبے کے ممتاز ماہر پروفیسر ڈوان لی رین بتاتے ہیں کہ کاروں کے لیے لوگوں کی پسندیدگی مسلسل برقرار ہے:’’لوگ اور زیادہ کاریں لینا چاہتے ہیں۔ جرمنی میں ہر تیسرے شخص کے پاس اپنی گاڑی ہے جبکہ بیجنگ کے ہر چوتھے باسی کے پاس اپنی کار ہے۔‘‘

ایک زمانے میں بیجنگ سائیکلوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ کاروں کی بہتات سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے چین میں بائیسکل کے استعمال کی پرانی روایت کے احیاء کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم ان کوششوں کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بیجنگ کی سڑکوں پر اب بھی بائیسکل سواروں کے لیے چوڑے رستے موجود ہیں لیکن اُن پر بائیسکل سوار بہت کم نظر آتے ہیں۔ چین میں یہ تاثر اب عام ہو گیا ہے کہ بائیسکل غربت کی علامت ہے اور اِسے وہی لوگ استعمال کرتے ہیں، جو اپنی ذاتی کار خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

چین میں بائیسکل کو پھر سے رواج دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
چین میں بائیسکل کو پھر سے رواج دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیںتصویر: AP

اِس تاثر کو بدلنے کے لیے کوشاں افراد میں آسٹریلوی شہری شینن بفٹن (Shannon Bufton) بھی شامل ہیں، جو اپنی تنظیم ’سمارٹر دین کارز‘ کی مدد سے لوگوں کو ایک بار پھر بائیسکل کی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی کوششوں کی کامیابی کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں:’’اب ہمیں پچیس سال سے کم عمر کے زیادہ سے زیادہ ایسے نوجوان نظر آ رہے ہیں، جو فیشن کے طور پر بائیسکل کی سواری کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگ وِیک اَینڈز پر بیجنگ کے مضافات میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بائیسکل پر سوار ہو کر نکل جاتے ہیں۔‘‘

چونکہ بیجنگ کے شہریوں کو صرف ماحول کو درپیش خطرات کا حوالہ دے کر قائل کرنا کافی مشکل ثابت ہوتا ہے، اِس لیے شینن بفٹ کی کوششں اب یہ ہے کہ بائیسکل کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ایک مہنگے اور جدید ذریعہ آمد و رفت کے طور پر متعارف کروایا جائے، جو متوسط طبقے کی پہچان بنے۔ اِس سے اِس تاثر کو بھی زائل کرنے میں مدد ملنے کا امکان ہے کہ محض غریب لوگ ہی بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔

Ruth Kirchner/aa/hk