1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

پاکستانی سفارتخانے پر حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، طالبان

5 جنوری 2023

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارتی مشن پر حملے میں ملوث اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے عسکریت پسندوں کو سکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Lkgz
Afghanistan Botschaft von Pakistan in Kabuld Archiv
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

افغانستان کے حکمراں طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پانچ جنوری جمعرات کے روز بتایا کہ بدھ کے روز کابل میں طالبان کے ایک آپریشن کے دوران پاکستانی سفارتخانے پر حملہ کرنے والے اسلامک اسٹیٹ (داعش) سے وابستہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کا حق ہے، امریکہ

واضح رہے کہ دو دسمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا، جس میں مشن کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی کو نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے اور ان کا ایک محافظ شدید طور پر زخمی ہو گیا تھا۔

طالبان دہشتگردی کے خلاف ’توقعات‘ پر پورے نہیں اترے، پاکستان

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم گروپ اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (داعش) نے قبول کی تھی اور اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ اسی نے پاکستانی سفیر کو نشانہ بنایا تھا۔

طالبان کا کیا کہنا ہے؟

اس حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کے روز جو بیان جاری کیا ہے، اس کے مطابق افغانستان کے سکیورٹی فورسز نے کابل میں اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کے اس ''خطرناک نیٹ ورک'' کے خلاف کارروائی کی، جو پاکستانی سفارت خانے اور اس ہوٹل پر حملوں میں ملوث تھا، جہاں چینی شہری مقیم تھے۔

امریکہ کی طرف سے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی مذمت

افغان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ اس آپریشن میں مارے گئے عسکریت پسند کابل اور بعض دیگر عسکری مقامات پر ہونے والے حملوں میں بھی ملوث تھے۔

واضح رہے کہ 12 دسمبر کو بیجنگ نے بھی کہا تھا کہ اس کے پانچ شہری بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہی چین نے اپنے شہریوں کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر افغانستان چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا۔

Taliban-Sprecher Sabiullah Mudschahid
مجاہد کا کہنا تھا کہ مارے گئے دہشت گردوں نے اہم اہداف پر مزید حملوں کا منصوبہ بنایا تھاتصویر: Xinhua /imago images

ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ بدھ کے روز ہی مغربی صوبے نمروز میں بھی داعش کے خلاف اسی طرح کی ایک کارروائی کی گئی اور ''بدھ کو ہونے والی کارروائیوں میں داعش کے آٹھ ارکان مارے گئے۔''  انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز میں ہلاک ہونے والوں میں متعدد غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔

مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ مارے گئے دہشت گردوں نے اہم اہداف پر مزید حملوں کا منصوبہ بنایا تھا۔ ''وہ دوسرے ممالک سے بھی داعش کے مزید ارکان کو لانے اور مربوط حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے۔''

ترجمان نے کہا کہ کابل میں آپریشن شہدائے صالحین اور قلعہ کے علاقوں کے ساتھ ہی نمروز کے صدر مقام زارنج میں کیا گیا۔ ان کے مطابق آپریشن کے دوران شدت پسندوں کے تین ٹھکانوں ''ختم'' کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش کے خفیہ ٹھکانوں سے چھوٹے قسم کے اسلحے، دستی بم، بارودی سرنگیں، خود کش جیکٹس اور دھماکہ خیز مواد ضبط کیے گئے۔ ساتھ ہی داعش کے سات ارکان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

پاکستانی سفارت مشن پر حملہ

واضح رہے کہ دو دسمبر کو کابل میں پاکستان کے سفارتی عملے پر فائرنگ کی گئی تھی جب ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے مگر ان کے ایک محافظ کو گولی لگی اور وہ شدید طور پر زخمی ہو گیا تھا۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اس وقت حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ کارروائی قرار دیا تھا۔ اس حملے سے ایک روز قبل ہی اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔

 گرچہ پاکستان نے اب تک افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، تاہم اس نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا ہوا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی) 

پاکستان میں تعلیم کے حق سے محروم افغان بچے