1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں بین الاقوامی امن کانفرنس

افسر اعوان خبر رساں ادارے
28 فروری 2018

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنی نوعیت کی دوسری بین الاقوامی امن کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک جائز سیاسی طاقت تسلیم کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2tRCx
Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
تصویر: Reuters/O. Sobhani

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق سخت سکیورٹی کے حصار میں ہونے والے اس اجلاس میں پچیس ممالک کے نمائندے اور تین بین الاقوامی تنظیموں کے وفود شریک ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا اور 16 سالہ افغان جنگ کا کسی طریقے سے خاتمہ کرنا بتایا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا۔

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
آج 28 فروری کو ہونے والی ایک روزہ بین الاقوامی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

امریکی اعداد وشمار کے مطابق طالبان افغانستان کے 13 فیصد حصے پر قابض ہیں جبکہ دیگر اندازوں کے مطابق افغانستان کا چالیس فیصد تک علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے مسلسل انکار کرتے چلے آئے ہیں، جسے وہ ایک ’’کٹھ پتلی حکومت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کی بجائے طالبان کا مطالبہ ہے کہ وہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج میں امریکا کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ تاہم واشنگٹن اور بین الاقوامی برادری کا اصرار ہے کہ افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔

طالبان کو جائز سیاسی طاقت تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اشرف غنی

افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک جائز سیاسی طاقت تسلیم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ان کی یہ پیش کش افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ افغانستان میں گزشتہ سولہ برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکے۔

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
اجلاس میں پچیس ممالک کے نمائندے اور تین بین الاقوامی تنظیموں کے وفود شریک ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

کابل میں آج بدھ کے روز ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے ساتھ ساتھ طالبان کے قیدیوں کو بھی رہا کرنے پر تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو وہ اس معاہدے کے تحت افغانستان کے آئین پر نظر ثانی کے لیے بھی تیار ہیں۔ افغان صدر ماضی میں بھی متعدد مرتبہ طالبان کو امن مذاکرات کی پیش کش کرتے آئے ہیں۔

آج 28 فروری کو ہونے والی ایک روزہ بین الاقوامی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔