1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل حکومت کی تمام معدنی کان کن کمپنیوں کو تنبیہ

شادی خان سيف، کابل11 جون 2015

افغانستان کے نئے وزیر معدنیات اور پٹرولیم نے تنبیہ کی ہے کہ چین اور بهارت کی سرکاری کمپنیوں سمیت جس بھی ملکی یا غیر ملکی مائننگ فرم نے افغان قوانین کی پاسداری نہ کی، اس کے ٹهیکے منسوخ کردیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1Ffdx
تصویر: Paula Bronstein/Getty Images

افغانستان کے طول و عرض میں پهیلے ہوے قدرتی وسائل کے ذخائر کو اس جنگ زده ملک کے درخشاں مستقبل کا اہم سہارا تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی ارضیاتی جائزے کے مطابق نایاب زمینی دهاتوں (rare earth metals) سمیت افغانستان میں تیل اور گیس، تانبے، لوہے، سونے، قیمتی پتهروں، لیتهیم اور یورینیم سمیت کئی دیگر دهاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کی مالیت سرسری اندازوں کے مطابق بھی کئی ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔

افغانستان میں 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے فوجی قبضے، خانه جنگی اور پهر طالبان دور کے بعد بالآخر گزشته قریب ایک دہائی کے دوران حالات قدرے سنبهلے ہیں۔ 2001 سے یکے بعد دیگرے جمہوریت کے تین ادوار نے، جو کافی حد تک بیرونی فوجی اور غیر فوجی امداد کے باعث ممکن ہوئے، ملک میں باقاعدہ حکومتی ڈهانچے کی بنیاد رکھی۔ خطے کی بڑی اقتصادی طاقت کی حیثیت سے چین اور بهارت کا شمار افغانستان میں معدنیات کے شعبے میں دلچسی رکھنے والے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔

جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع اس ملک کی نئی حکومت نے اب گزشته ادوار میں بظاہر جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کا عندیه دیا ہے۔ نئے وزیر معدنیات اور پٹرولیم داؤد شاه صبا نے ابھی حال ہی میں صحافیوں کو بتایا کہ بهارتی کنسورشیم نے بامیان صوبے میں لوہے کی کان میں سرمایه کاری کے سلسلے میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اسے منتخب بهی کر لیا گیا تها تاہم اب تک اس ضمن میں اس کمپنی نے کوئی ٹهوس پیشرفت نہیں کی۔ حاجی گک کے نام سے مشہور لوہے کے یه ذخائر افغانستان میں لوہے کے سب سے بڑے اور ایشیا میں اب تک سربمہر رہنے والے وسیع ترین ذخائر تصور کیے جاتے ہیں، جو 16 مختلف حصوں میں قریب 32 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

افغان پارلیمان کے ایوان زیریں یا ’ولسی جرگه‘ نے بهی رواں ہفتے وزیر معدنیات کو طلب کیا تها که وه اس حوالے سے منتخب عوامی نمائندوں کو آگاه کریں۔ اس موقع پر داؤد صبا نے انکشاف کیا که بهارتی کنسورشیم کو حاصل قانونی مہلت ختم ہوچکی ہے اور اب نئے سرے سے ٹینڈر جاری کیے جائیں گے۔

مشرقی صوبے لوگر میں تانبے کے ذخائر کے حوالے سے بھی اس وزیر نے غیر تسلی بخش حالات کی عکاسی کرتے ہوئے کہا که چینی فرم ’چائنہ میٹلرجیکل گروپ کنسورشیم‘ MCC نے معاہدے میں کان تک ریل کی پٹری بچهانے سمیت دیگر کئی امور کو مشروط قرار دیا تھا اور یوں وه اس حوالے سے محض اپنے مفادات کا دفاع کر رہی ہے۔ واضح رہے که ’مَیس عینک‘ نامی اس منصوبے کے خلاف ایک عالمگیر مہم #SaveMessAynak بهی جاری ہے، جس کا موقف ہے که چینی کمپنی اس مقام پر کان کنی کے دوران وہاں موجود ہزاروں برس قدیم تہذیبی آثار کو تہس نہس کر دے گی۔

Bergwerk in Afghanistan Provinz Samangan ARCHIV 2012
تصویر: Qais Usyan/AFP/Getty Images

ماہر اقتصادیات تاج محمد کے بقول معدنی ذخائر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاہم جنگی سرداروں، عسکریت پسندوں اور غیر ملکی کمپنیوں نے اس وقت جس طرز کی اجاره داری قائم کر رکهی ہے، ایسے میں حکومت یا عوام تک فوائد پہنچنا خاصا مشکل دکهائی دیتا ہے۔ ان کے بقول کابل حکومت اب بهی اپنی انتظامی ضروریات کے لیے بیرونی امداد پر انحصار کر رہی ہے جبکه محض معدنی ذخائر ہی اسے دوسروں پر انحصار ختم کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

افغان پارلیمان میں اپنے اپنے صوبوں کی نمائندگی کرنے والے متعدد ارکان شواہد کی بنیاد پر کئی بار یه دعوے کرچکے ہیں که ان کے ہاں غیر قانونی طور پر بااثر افراد اپنے بل پر چهوٹی بڑی مشینری کی مدد سے قیمتی پتهر اور دیگر معدنیات نکال کر بیرون ملک اسمگل کر رہے ہیں۔

ملکی وزیر داؤد صبا کا اس حوالے سے کہنا ہے که اب تک وزارت معدنیات اور پٹرولیم نے کان کنی کے لگ بهگ تین سو ٹهیکے دے رکھے ہیں مگر اصل میں اس وزارت کے اندر اس قدر اہلیت اور توانائی موجود نہیں که وه محض ایک سو منصوبوں کی بهی ٹھیک نگرانی کرسکے۔

صدر محمد اشرف غنی، جو عالمی بینک سمیت کئی اہم بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے کا تجربه رکهتے ہیں، کی حکومت نے موجوده صورتحال میں بڑے بڑے معدنی منصوبوں کے بجائے چهوٹے پیمانے پر قابل نگرانی ٹهیکے دینے کا عندیه دیا ہے۔

ایک اور اہم بات جسے آج کل کافی ابهارا جا رہا ہے، وه عسکریت پسندوں، بالخصوص اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والے گروہوں کی جانب سے معدنی ذخائر پر کنٹرول کی کوشش ہے۔ عراق کی مثال دیتے ہوئے وزیر معدنیات نے سلامتی کے ذمے دار ملکی اداروں پر زور دیا ہے که وه اس امر کو یقینی بنائیں که عسکریت پسند معدنی ذخائر سے مالامال علاقوں پر قابض نه ہو سکیں۔