1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل بینک فراڈ کی تفتیش پیچیدہ: تفتیش کار پرعزم

28 نومبر 2012

افغانستان میں کرپشن کی سطح انتہائی بلند خیال کی جاتی ہے اور ایسے میں کابل بینک میں ہونے والی کروڑوں ڈالر کی چوری کی تفتیش دو برس بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ تفتیش کاروں کو سنگین دھمکیوں کا بھی سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/16s0z
تصویر: AP

دو سال قبل کابل بینک سے کسی طور پر 935 ملین ڈالر اڑا لیے گئے تھے اور اس چوری کو غریب اور پسماندہ ملک افغانستان میں انتہائی سنگین واقعہ قرار دیا گیا تھا۔ اس مالیاتی سرقے نے افغان مالیاتی نظام پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ اس کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے۔ اس عدالت کا سربراہ ایک جج شمس الرحمان شمس کو مقرر کیا گیا۔ چیف تفتیش کار شمس کی افغانستان میں ایک سخت مزاج اور صاف گو جج کی شہرت ہے۔ جج شمس الرحمان شمس بارہا کہہ چکے ہیں کہ کابل بینک کے فراڈ اور چوری میں کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

Afghanistan Kabul Bank
کابل بینک کو کروڑوں کے فراڈ سے برباد کر دیا گیا تھاتصویر: AP

جج کی ہمت اور کوشش اپنی جگہ لیکن مبصرین کو تشویش ہے کہ افغانستان کے کرپشن سے لتھڑے ہوئے معاشرے میں اس چوری میں ملوث افراد کو کٹہرے تک لانا کیوں کر ممکن ہو گا۔ ان مبصرین کے نزدیک افغانستان میں حکومتی اور سماجی سطح پر سردست یہ خاصیت نظر نہیں آتی کہ مالیاتی معاملات کو صاف و شفاف انداز میں طے کیا جائے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کا نفاذ اور بول بالا ہو سکے۔

کابل بینک میں ہونے والے کروڑوں ڈالر کے ہیرپھیر کی تفتیش کرنے والے جج شمس الرحمان شمس نے سخت الفاظ میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اہم اور طاقتور افراد سے نبرد آزما ہیں کیونکہ یہ لوگ آسانی سے گرفت میں نہیں لائے جا سکتے، لیکن شفاف تفتیش ہر ممکن طور پر مکمل کی جائے گی۔ جج شمس الرحمان شمس اس خصوصی تفتیشی کورٹ کے سربراہ ہیں، جو ان بائیس افراد سے پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہے، جن پر شبہ کیا جا رہا ہے کہ اُن کے فراڈ کی وجہ سے ایک بڑا بینک زوال کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ جج شمس الرحمان شمس کا دفتر افغان دارالحکومت کابل کے ایک گھر میں انتہائی سکیورٹی میں بنائے گئے بنکر میں قائم ہے۔

Afghanistan Kabul Bank Flash-Galerie
کابل بینک فراڈ کی تفتیش ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی ہےتصویر: AP

فراڈ کے بعد کابل بینک پوری طرح برباد ہو گیا تھا اور ملک میں مالیاتی بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ غیر ملکی امدادی اداروں نے انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں اور کرزئی حکومتی کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ حکومت نے کابل بینک کو کھڑا کرنے کے لیے خصوصی امداد فراہم کی اور اب وہی بینک ایک نئے نام یعنی نیو کابل بینک کی شناخت کے ساتھ سرکاری نگرانی میں کام کر رہا ہے۔

کروڑوں ڈالر کے اس بینک فراڈ میں کئی اہم نام شامل ہیں۔ اس مناسبت سے جو بائیس نام سامنے آئے ہیں، ان میں اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ ساتھ بینک کے سابقہ سربراہان، بینک کے بانی اور افغان صدر حامد کرزئی کے بھائیوں کے علاوہ اول نائب صدر محمد قاسم فہیم بھی شامل ہیں۔

اس حوالے سے یہ بھی اہم ہے کہ کابل بینک کے فراڈ سے متعلق پہلی بار ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہچکچاہٹ، سیاسی مداخلت اور غیر ملکی آڈیٹرز کے سوالات شامل ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ اس فراڈ کی شفاف تفتیش اب افغان حکومت کی جانب سے کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کا معیار ٹھہرے گی۔

ah / aa ( Reuters)