1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کئی اعلیٰ چینی اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات

ژُو ایرننگ / مقبول ملک5 ستمبر 2013

کرپشن کے خلاف چینی مہم میں کوئی وقفہ نظر نہیں آتا۔ بُو ژیلائی کی ذات سے متعلق واقعات کے بعد اب ژُو یونگ کانگ کے بارے میں تفصیلات سامنے آنے لگی ہیں۔ ژُو برسوں تک ملکی طاقت کا مرکز کہلانے والی نو رکنی کمیٹی کا حصہ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19cRr
تصویر: Reuters

بہت سی باتوں کو ابھی محض قیاس آرائی ہی کہا جا سکتا ہے، لیکن چین میں طاقت اور سیاست کے رخ کی کشمکش ابھی تک داخلی اور بیرونی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

شی جن پنگ کی سربراہی میں نئی چینی قیادت اس واضح ہدف کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اس جنگ کا مقصد بدعنوانی میں ملوث صرف چھوٹی مچھلیوں ہی کی نہیں بلکہ بڑے ہاتھی سمجھے جانے والے اعلیٰ اہلکاروں اور سرکردہ اقتصادی شخصیات کی کرپشن پر بھی قابو پانا ہے۔

Hu Jintao & Zhou Yongkang ARCHIVBILD 08.03.2010
ژُو یونگ کانگ، دائیں، کی سابق چینی صدر ہو جن تاؤ کے ساتھ ایک تصویر، فائل فوٹوتصویر: Liu Jin/AFP/Getty Images

بات صرف دعووں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ قول کے بعد فعل بھی دیکھنے میں آیا اور جولائی کے مہینے میں دیگر شخصیات کے علاوہ ریلوے کے سابق وزیر لَیُو ژی جُن کو معطل سزائے موت سنا دی گئی یعنی اس سزا پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا اور وہ عمر بھر قید میں رہیں گے۔

ابھی حال ہی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے سابق رکن اور سیاست میں غیر معمولی شہرت اختیار کر جانے والے بُو ژیلائی کے خلاف مقدمے کی پانچ روزہ سماعت بھی مکمل ہو گئی، جس کے بعد ان کے خلاف فیصلہ انہی دنوں میں سنایا جانے والا ہے۔ بُو ژیلائی کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ شی جن پنگ کے پیش رو ہو جن تاؤ کے دور میں ہی کر لیا گیا تھا، اس لیے کئی ماہرین کی رائے میں موجودہ صدر پر یہ دباؤ ہے کہ وہ ملک میں کرپشن کے خلاف ایک ایسی مہم کو یقینی بنائیں، جس کی گونج ذرائع ابلاغ میں بھی سنائی دیتی رہے۔

منگل تین ستمبر کو سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا نے تصدیق کر دی کہ جیانگ جی مِن کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ وہ سرکاری اداروں کے منتظم ریاستی کمیشن کے سربراہ تھے۔ ان کی برطرفی سے دو روز قبل ایک سرکاری بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ جیانگ جی مِن کے خلاف سرکاری ضابطوں کی شدید خلاف ورزی یعنی عام اصطلاح میں کرپشن کے شبے میں چھان بین کی جا رہی تھی۔

ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے اخبار ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق اگست کے آخر میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کی سٹینڈنگ کمیٹی کے ایک سابق رکن بھی اب انسداد بدعنوانی کے لیے پھیلائے گئے جال میں پھنس گئے ہیں۔ یہ اس لیے بہت بڑی بات ہے کہ چین میں ماضی میں نو اور موجودہ قیادت کے تحت سات ارکان پر مشتمل یہ مجلس قائمہ ہی طاقت کا اصل مرکز سمجھی جاتی ہے۔

Bo Xilai vor Gericht am 25. August 2013
بُو ژیلائی اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دورانتصویر: picture-alliance/AP

ژُو یونگ کانگ گزشتہ برس نومبر تک اس کمیٹی کے رکن تھے۔ ان سے پہلے اس کمیٹی کے کسی بھی موجودہ یا سابقہ رکن پر آج تک بدعنوانی کا کوئی مقدمہ نہیں چلا۔ ژُو یونگ کانگ دس برس تک چینی عدالتی نظام اور ریاستی سلامتی کے ذمہ دار رہنے کے علاوہ ملکی پولیس کے اعلیٰ ترین سربراہ بھی رہے تھے۔ اسی سیاستدان کی رہنمائی میں چین پہلی مرتبہ ایک ایسا ملک بن گیا تھا، جس نے اپنے دفاع کے مقابلے میں ریاستی سلامتی کے شعبے میں زیادہ رقوم خرچ کی تھیں۔

اب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس وقت 70 سالہ ژُو یونگ کانگ کے خلاف غالباﹰ کرپشن کے الزام میں چھان بین نہیں کی جائے گی بلکہ وہ ایک طرح کے سلطانی گواہ بن کر دیگر شخصیات کے خلاف بدعنوانی سے متعلق چھان بین میں مدد کریں گے۔ چین میں اب سب سے بڑی سرکاری تیل کمپنی CNPC کے موجودہ اور سابقہ منتظمین اور اس کمپنی کے ایک ذیلی ادارے PetroChina کے اعلیٰ اہلکاروں پر بھی بدعنوانی کے شبے میں نظر رکھی جا رہی ہے۔

ایسے میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ چین میں اگر اقتصادی حوالے سے ملکی سیاست کی سمت کا نئے سرے سے تعین کیا جائے گا تو فیصلہ کس طرف جائے گا۔ اس تناظر میں ملک میں کرپشن کے خلاف مہم کے سائے ستمبر میں ہونے والے چینی کمیونسٹ پارٹی کے کنونشن پر بھی پڑیں گے۔ اس پارٹی کنونشن سے ماہرین اقتصادی اصلاحات کے لیے نئی تحریک اور سماجی تحفظ کے نظام، مالیاتی شعبے اور ریاستی اداروں کی کارکردگی میں زیادہ شفافیت کے حوالے سے فیصلوں کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں