1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈینیئل پرل قتل کیس: احمد عمر شیخ کی سزائے موت قید میں تبدیل

2 اپریل 2020

ایک پاکستانی عدالت نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت قید میں بدل دی ہے۔ عدالت نے تین دیگر ملزمان کی رہائی کا حکم بھی دے دیا۔

https://p.dw.com/p/3aMRl
Ahmed Omar Saeed Sheikh
تصویر: AFP/A. Quereshi

اس مقدمے میں وکیل دفاع خواجہ نوید نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''عدالت نے احمد عمر سعید شیخ کو سنائی گئی سزائے موت کو سات سال کی سزائے قید میں بدل دیا ہے۔‘‘ خواجہ نوید کے بقول ان ملزمان کے خلاف قتل کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے تھے اور اسی لیے احمد عمر سعید کو اغواء کے الزام میں اب سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ آج جمعرات دو اپریل کو کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے سنایا۔

وکیل دفاع کا مزید کہنا تھا کہ عمر شیخ پہلے ہی اٹھارہ سال جیل میں  گزار چکا ہے اور اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے اس کی رہائی کے احکامات آج جمعرات ہی کو کسی وقت جاری کر دیے جائیں گے، ''اس کے علاوہ اغوا اور قتل کے اس مقدمے میں ملوث دیگر تین ملزمان کو عدالت نے رہا کر دیا ہے۔‘‘

امریکی صحافی پرل کو جنوری 2002ء میں کراچی میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہ امریکا پر 2001ء میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد مسلم انتہا پسندی کے موضوع پر ایک تحقیقی رپورٹ کے لیے انٹرویو کرنے پاکستان گئے تھے۔ پرل کی لاش ان کے اغوا کے چار ماہ بعد ملی تھی، جسے ان کے قاتلوں نے ایک درجن ٹکڑوں میں کاٹ دیا تھا۔

امریکی صحافی ڈينيئل پرل کو جنوری 2002ء میں کراچی میں اغوا کر لیا گیا تھا
امریکی صحافی ڈينيئل پرل کو جنوری 2002ء میں کراچی میں اغوا کر لیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

شدت پسندوں کی طرف سے ڈینیئل پرل کے قتل کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی، جس میں ایک نقاب پوش شخص کو پرل کے گلے پر خنجر چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق یہ نقاب پوش قاتل القاعدہ کا رہنما خالد شیخ م‍‍‍‍‍‍‍‍‍حمد تھا۔ خالد شیخ م‍‍‍‍‍‍‍‍‍حمد کو نائن الیون حملوں کا ایک اہم منصوبہ ساز کہا جاتا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں اس مقدمے کے وکیل استغاثہ فیض شاہ نے کہا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کی تفصیلات پڑھنے کے بعد اس کے خلاف اپیل کرنے کے بارے میں غور کریں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک وکیل محمد فاروق نے بتایا کہ استغاثہ کی طرف سے کوئی اپیل ان افراد کی رہائی کی راہ میں شاید کوئی رکاوٹ ثابت نہ ہو سکے۔

ع ا / م م (روئٹرز، اے ایف پی)