1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی ڈبلیو کی جانب سے ترک زبان میں یوٹیوب چینل کا آغاز

29 اپریل 2019

ڈوئچے ویلے اور تین دیگر بین الاقوامی نشریاتی ادارے پہلی مرتبہ مل کر ترک زبان میں ایک یوٹیوب چینل کا آغاز کر رہے ہیں، جس کا مقصد اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو مضبوط بنانا ہے۔

https://p.dw.com/p/3HZpE
Youtube-Sperre Türkei
تصویر: Ozan Kose/AFP/Getty Images

یہ یوٹیوب چینل ’نئی صحافتی معلومات پیش‘ کرے گا۔ ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) اور اس کے پارٹنر نشریاتی اداروں کے مطابق اس طرح نہ صرف ترک صارفین تک رسائی حاصل ہو سکے گی بلکہ ان ترک باشندوں تک بھی معلومات پہنچائی جا سکیں گی، جو بیرونی ممالک میں مقیم ہیں۔ جرمنی کا بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ڈی ڈبلیو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، فرانسیسی ٹیلی وژن فرانس24 اور امریکی نشریاتی ادارے  وائس آف امریکا کے ساتھ مل کر یہ آن لائن ویڈیو مواد پیش کرے گا۔ ان چاروں اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کے مطابق رپورٹوں، تبصروں، جائزوں اور انٹرویوز کے ذریعے وسیع تر سماجی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔

قابل اعتماد معلومات، آزاد رائے کی تشکیل

ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ کا کہنا تھا، ’’اس یوٹیوب چینل کے ذریعے ہم ترک صارفین کو ایسی قابل اعتماد معلومات فراہم کرنا چاہتے ہیں، جو آزاد رائے کی تشکیل میں ان کی  معاون ثابت ہوں گی۔ یہ بین الاقوامی میڈیا اداروں کے مابین تعاون کا ایک منفرد منصوبہ ہے، جس کا مقصد ترک زبان بولنے والے ایسے صارفین کو مواد فراہم کرنا ہے، جو بین الاقوامی سیاست، معیشت، سائنس اور ثقافت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

DW-Intendant Peter Limbourg
ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ تصویر: DW/M. Magunia

پیٹر لمبورگ ڈی ڈبلیو کے ان تین پارٹنر میڈیا ہاؤسز کے ذمہ دار نمائندوں کے ساتھ مل کر پیر انتیس اپریل کو استنبول میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ یو ٹیوب چینل متعارف کرائیں گے اور اس کا عملی آغاز بھی ہو جائے گا۔ شروع میں اس چینل پر متعدد ویڈیوز موجود ہوں گی، جن میں ترکی میں تعمیراتی صنعت کے بحران اور کم عمری کی شادیوں سے متعلق رپورٹیں بھی شامل ہیں۔

ایک کھڑکی یورپ کی طرف

یہ منصوبہ ڈوئچے ویلے کی سن 2018ء سے 2021ء تک کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس منصوبہ بندی میں لکھا گیا ہے، ’’بہت سے لوگوں کی امیدوں کے برعکس ترک حکومت نے اس  یقین میں کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ آمرانہ راستے پر گامزن ہے۔‘‘ ڈی ڈبلیو ترکی کے سماجی و سیاسی معاملات میں یورپی اقدار کی نمائندگی کرنا چاہتا ہے۔ ترک مارکیٹ میں اس مواد کو رائج کرنا یقینی طور پر ایک چیلنج ہے۔ ’’ترکی میں صحافتی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ممکنہ نئے شراکت دار آزاد مغربی معلومات فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو زیادہ تر مسترد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ ایک ذاتی پلیٹ فارم کا قیام انتہائی اہم ہوگا۔ تحریری منصوبہ بندی میں مزید لکھا گیا ہے، ’’یورپ کی طرف ایک کھڑکی کھولنے کے لیے ڈی ڈبلیو دیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ یوٹیوب چینل اور ترک زبان کا ایک ٹی وی چینل شروع کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔‘‘ جرمنی میں ٹیکس دہندگان کی رقوم سے چلنے والا ادارہ ڈی ڈبلیو ہر چار برس بعد اپنے لیے نئے اہداف کا تعین کرتا ہے۔ جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے جون دو ہزار اٹھارہ میں اس ادارے کی سن دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار اکیس تک کی منصوبہ بندی کی منظوری دی تھی۔

دنیا بھر میں لاکھوں صارفین

ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ چار بڑے مغربی میڈیا ادارے مل کر کسی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ قبل ازیں ڈوئچے ویلے فرانسیسی میڈیا گروپ فرانس میڈیا موند (ایف ایم ایم)  اور فرانس24 نامی ادارے کے ساتھ مل کر کام کر چکا ہے۔  ڈوئچے ویلے دنیا کی تیس زبانوں میں آزادانہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ ڈی ڈبلیو اور ’ایف ایم ایم‘  ٹی وی، ریڈیو اور اپنی ڈیجیٹل پیشکشوں کے ذریعے ہر ہفتے 320 ملین صارفین تک پہنچتے ہیں۔

اسی طرح برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی بھی متعدد زبانوں میں ریڈیو، ٹی وی اور آن لائن سروسز فراہم کرتا ہے۔ بی بی سی کے بین الاقوامی پروگرام ہفتہ وار بنیادوں پر دنیا کے 279 ملین افراد تک پہنچتے ہیں۔ اس منصوبے کا چوتھا پارٹنر وائس آف امریکا ہے، جو امریکا کا سب سے بڑا بین لاقوامی ریڈیو بھی ہے۔ یہ میڈیا ہاؤس بھی دنیا کی چالیس زبانوں میں کام کرتا ہے اور ہفتہ وار بنیادوں پر اس کے صارفین کی تعداد تقریباﹰ 275 ملین ہے۔

گروسے پیٹرک / ا ا / م م