1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکہ: آٹھ منزلہ عمارت گرنے سے 161 ہلاک

25 اپریل 2013

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں ایک آٹھ منزلہ عمارت، جس میں ملبوسات تیار کرنے والی متعدد فیکٹریوں کے ہزاروں مزدور موجود تھے، منہدم ہو گئی۔ کم از کم 161 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/18Lur
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ واقعہ بدھ چوبیس اپریل کی صبح مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے پیش آیا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈھاکہ کے قریب ساوار کے مقام پر آٹھ منزلہ عمارت رانا پلازہ کا اب صرف گراؤنڈ فلور بچا ہے، باقی ساری عمارت گر کر تباہ ہو چکی ہے۔ وزیر داخلہ محی الدین خان کا کہنا تھا کہ یہ عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔

سیمنٹ اور سریے کے مڑے تڑے تاروں کے پہاڑ جیسے ملبے میں سے لاشوں اور زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے فائر بریگیڈ اور فوج کے سینکڑوں کارکن مصروفِ عمل ہیں۔ لاشوں اور زخمیوں کو بلندی سے نیچے لانے کے لیے کپڑے کے اُنہی تھانوں کی مدد لی گئی، جنہیں کاٹ کاٹ کر چند ہی گھنٹے پہلے مغربی دنیا کو برآمد کرنے کے لیے شرٹیں، پتلونیں اور دیگر ملبوسات تیار کیے جا رہے تھے۔ یہ عمارت کسی زلزلے کے بعد ہونے والی تباہی کا منظر پیش کر رہی تھی۔

قریب ہی واقع انعام ہسپتال کے ایک ڈاکٹر اور ایمرجنسی وارڈ ڈاکٹر ہلال رائے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اب تک کم از کم 82 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ کم از کم سات سو زخمیوں کو ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر رائے کا کہنا تھا کہ ’کئی زخمیوں کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ابھی ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے‘۔ بعد میں حکام نے 161 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔

امدادی ٹیموں کے سینکڑوں کارکن ملبہ ہٹانے میں مصروف ہیں
امدادی ٹیموں کے سینکڑوں کارکن ملبہ ہٹانے میں مصروف ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

کچھ ورکرز نے شکایت کی کہ ایک روز قبل منگل کو ہی عمارت میں دراڑیں دیکھی گئی تھیں، جس کے بعد فوری طور پر عمارت کو خالی کروا لیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اُن کے منیجروں نے اُنہیں پھر سے کام پر واپس بلا لیا تھا۔

ایک 24 سالہ ورکر نے، جس نے اپنا نام موسمی بتایا، اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’منیجرز نے ہمیں کام پر واپس آنے پر مجبور کیا اور ہمارے عمارت میں داخل ہونے کے ایک ہی گھنٹے بعد عمارت ایک زور دار دھماکے کے ساتھ نیچے آ گری‘۔ اُس نے بتایا:’’میں زخمی ہوں لیکن مجھے اپنے شوہر کا کچھ پتہ نہیں ہے، جو چوتھے فلور پر کام کرتا تھا۔‘‘ اِس عمارت کے اندر کچھ رہائشی اپارٹمنٹس، ایک بینک اور کئی دکانیں بھی تھیں اور موسمی کے اندازوں کے مطابق پانچ ہزار ورکرز رانا پلازہ کے اندر موجود تھے۔

بنگلہ دیش کی ملبوسات تیار کرنے والی صنعت دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی دوسری بڑی صنعت ہے تاہم اِس واقعے نے ملبوسات تیار کرنے والی صنعت میں سلامتی کے اقدامات کے بارے میں نئے سرے سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ واضح رہے کہ ابھی گزشتہ نومبر میں ڈھاکہ کے مضافات میں ملبوسات تیار کرنے و الی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے 111 ورکرز ہلاک ہو گئے تھے اور یہ اس صنعت کا اپنی نوعیت کا بدترین حادثہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی اب تک متعدد ایسے حادثات میں بڑی تعداد میں ورکرز ہلاک ہوئے ہیں۔

(aa/km(afp