1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈولفن سے متاثر ہو کر نئی ریڈار تکنیک ایجاد

عاطف توقیر29 اکتوبر 2013

برطانوی محققین نے ڈولفن کی ’شکار کی نشان دہی کی حس‘ کی تکنیک سے متاثر ہو کر ایک نیا ریڈار نظام ایجاد کیا ہے، جو غیرضروری سگنلز کو ضروری سگنلز سے الگ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1A7ux
تصویر: China Photos/Getty Images

ریڈار کے ذریعے ہدف کی موجودگی کی نشان دہی ایک عمومی طریقہ ہے تاہم اس طرح وہ سنگلز بھی ہم تک پہنچ جاتے ہیں، جن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سگنلز کو ’کلٹّر‘ کہا جاتا ہے۔

برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے بموں اور جاسوسی کے آلات کا باآسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظام ملبے یا برف تلے دبے لوگوں کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہے۔

Großbritannien Government Communications Headquarters Netzwerk
موجودہ ریڈار اشیاء کی ماہیت اور نوعیت نہیں بتاتےتصویر: Christopher Furlong/Getty Images

یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے آواز اور ارتعاش کے ادارے سے وابستہ ٹیم نے ٹیموتھی لائٹون کی سربراہی میں اس موضوع پر تحقیق کی۔ یہ نظام لینیئر اور نان لینیئر لہریں منتشر کرتا ہے اور یہ ارتعاشی موجیں مقررہ چیزوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں، تو ان سے باآسانی ایک ’سن لی جانے والی تصویر‘ سی بن جاتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس تیار کردہ آلے کی مدد سے ٹوین پلس سونار تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے باآسانی نیوٹرل آبجیکٹس کو لینئیر موجوں اور برقی آلات کے حامل آبجیکٹس کو نان لینیئر موجوں کی مدد سے الگ الگ لہروں کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔

محققین کے مطابق ڈولفن مچھلیاں بھی اسی نظام کے تحت آوازیں منتشر کرتی ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنے کھانے کے سائز کی مچھلیوں کو دیگر مچھلیوں سے الگ کرتی ہیں اور ان تک پہنچتی ہیں۔

یہ تازہ تحقیق برطانوی سائنسی جریدے پروسیڈنگز آف رائل سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔ محققین نے ڈولفن کی اس تکنیک کو TWIPR کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تیار کردہ ریڈار Twin Inverted Pulse Radar کہلائے گا۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ اس نئے ریڈار کو اس وقت موجود ریڈارز سے بہتر اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ صرف آبجیکٹس ہی کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ اس کی مدد سے زمین میں چھپائے گئے بموں میں موجود برقی تاروں، جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات اور عمارتوں کی دیواروں کے پیچھے موجود نیوٹرل آبجیکٹس مثلا پتھروں اور درختوں کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ اس طرح غیرضروری سنگلز کو ضروری سنگلز سے الگ کرنے میں مدد حاصل ہو سکے گی، کیوں کہ عام ریڈار صرف آبجیکٹس کا پتہ بتاتے ہیں تاہم ان کی نوعیت بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔