ڈرون طیارے کا نشانہ خطا ہو گیا، سکیورٹی حکام
13 مارچ 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی نے قبائلی علاقے میں سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈرون طیارے کا نشانہ خطا ہونے پر شدت پسندوں کو فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حملہ جنوبی وزیرستان کے مرکزی علاقے وانا سے بیس کلومیٹر مغرب میں اعظم وارسک میں کیا گیا۔
ایک سینیئر سکیورٹی عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا، ’امریکی ڈرون طیاروں نے پہلے شدت پسندوں کی ایک گاڑی پر دو میزائل فائر کیے، لیکن وہ ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکام رہے۔ اس کے نتیجے میں گاڑی پر سوار باغی، جن کی تعداد چار بتائی جاتی ہے، فرار ہو گئے‘۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان طیاروں نے بعد ازاں دو مزید میزائل فائر کیے، جو گاڑی کو لگے تو، لیکن اسے تباہ کرنے میں ناکام رہے۔
اس علاقے میں ایک دوسرے سکیورٹی عہدے دار نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے۔ اس نے بتایا کہ اتوار کی صبح وہاں چار ڈرون طیارے دیکھے گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاڑی پر سوار شدت پسندوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔
خیال رہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی تصدیق نہیں کرتا، تاہم اس نوعیت کے طیارے افغانستان میں تعینات اس کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے زیراستعمال ہی ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی ان علاقوں میں ہی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب ایسے حملوں کی وجہ سے پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات بڑھے ہیں، جو اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کو ملکی خودمختاری پر حملوں کے مترادف خیال کرتے ہیں۔
گزشتہ برس قبائلی علاقوں میں حملے تقریباﹰ دگنے کر دیے گئے تھے۔ اے ایف پی کے مطابق 2010ء میں ایک سو سے زائد ڈرون حملے ہوئے، جن میں 670 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ 2009ء میں پینتالیس ڈرون حملوں کے نتیجے میں چار سو بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف 2009ء میں ایک آپریشن شروع کیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی