1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملوں میں کمی کے پاک امریکی تعلقات پر ممکنہ اثرات

25 مئی 2013

امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستانی مطالبات کے برعکس اگرچہ ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم کچھ مبصرین اور حکومتی ذرائع پرامید ہیں کہ ڈرون حملے محدود کرنے کا اعلان بھی دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا سبب بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/18di3
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان روایتی طور پر امریکا کا حلیف ملک رہا ہے اور نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کا اہم اتحادی بھی ہے۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں، پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹرز والے شہر راولپنڈی سے کچھ دور ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور ایسے ہی کچھ دیگر واقعات کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

امریکی صدر نے اپنے تازہ ترین پالیسی بیان میں ڈرون حملوں کا کنٹرول سی آئی اے سے محمکہء دفاع پینٹاگون کو منتقل کرنے اور ڈرون حملوں کی ضرورت سے متعلق کچھ نئے رہنما اصولوں کی وضاحت کی ہے۔ ایسے میں ایک نکتہ البتہ واضح تھا کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا کنٹرول بدستور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پاس ہی رہے گا۔

Pakistan Asif Ali Zardari und Muhammat Nawaz Sharif
پاکستان کے متوقع وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ ملکی صدر آصف علی زرداریتصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے ای پی کے مطابق اگرچہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی اور سویلین قیادت ڈرون حملوں کی حمایت کر چکی ہے تاہم یہ حملے پاکستان میں عوامی سطح پر خاصے غیر مقبول ہیں اور ان میں اکثر بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی رپورٹ کی جاتی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے پالیسی بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان ڈرون حملوں نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی قیادت کو ختم کیا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ مسئلے کا واحد حل نہیں ہے۔ اوباما نے ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، انہیں اس کا ذاتی طور پر ملال رہے گا۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا میں دفاع سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین کے بقول صدر اوباما نے بالآخر پاکستان میں اس عوامی سوچ کو تسلیم کیا ہے، جو ڈرون حملوں کے سخت خلاف ہے۔ ’’لیکن پاکستانی لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں، جب تک ان ڈرون حملوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کر دیا جاتا۔‘‘ پاکستانی دفتر خارجہ کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، ’’پاکستانی حکومت نے مسلسل یہ واضح کیا ہے کہ ڈرون حملے نقصان دہ ہیں، ان میں بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ انسانی حقوق، علاقائی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہوتی ہے۔‘‘ پاکستان نے باراک اوباما کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے ذکر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کے تدارک کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

Flash-Galerie Proteste gegen US Drohnenangriffe
تصویر: AP

’یہ نئی پاکستانی حکومت کے لیے اچھا ہے‘

امریکی صدر نے اگرچہ ڈرون حملوں کا مجموعی طور پر دفاع کیا تاہم مبصرین کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ ڈرون طیاروں کے استعمال کے سلسلے میں نئے رہنما اصولوں سے واشنگٹن اور اسلام آباد ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پاکستان میں نواز شریف کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل کے مراحل میں ہے۔ اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے سربراہ امتیاز گل کے بقول یہ پاکستان کی نئی حکومت کے لیے اچھا ہے۔ ’’امید یہ ہے کہ اگر حملہ کیا جانا بھی ہے تو اس سے قبل بہت دھیان سے جانچ پڑتال کی جائے گی اور پاکستانی فورسز کے ساتھ رابطہ رکھا جائے گا۔‘‘

ڈرون حملوں سے متعلق اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین بداعتمادی رہی ہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ پاکستان اور عسکریت پسندوں کے کچھ گروپوں کے مابین روابط موجود ہیں، جنہیں پاکستانی حکومت مبینہ طور پر افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کو بارہا مسترد کیا ہے۔ پاکستان میں رواں برس اب تک درجن بھر ڈرون حملے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جبکہ 2010ء میں سب سے زیادہ یعنی120 ڈرون حملے کیے گئے تھے۔ پاکستانی قبائلی علاقوں سے متصل صوبے خیبر پختونخوا میں پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے ان ڈرون حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا جا چکا ہے۔ اندازوں کے مطابق 17اپریل 2013 ء تک 272 ڈرون حملوں میں 2509 افراد جاں بحق جبکہ 299 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

(sks/mm(AP