ڈارٹمنڈ میں بین الاقوامی فلم میلہ
8 مئی 2009پانچ روزہ خواتین کا فلمی میلہ بہت سے اعتبار سے انوکھا تھا۔ چند سالوں سے یہ میلہ جرمنی کے شہر کولون اور ڈارٹمنڈ میں منعقد ہوا کرتا ہے۔ یعنی ایک سال کولون تو اگلے برس ڈارٹمنڈ میں۔ اس بار خواتین کے اس فلمی میلے کا انعقاد شہر ڈارٹمنڈ میں ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ فلمی دنیا کی خواتین کا مقابلہ اپنی ہم جنسوں یعنی عورتوں ہی کے ساتھ تھا۔ ہدایت کاری، فلمسازی، فوٹو گرافی اور عکاسی کے شعبے میں مہارت رکھنے والی 27 ممالک کی خواتین کو متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ اس بار کے فلمی میلے کا موٹو تھا ’آزادی‘۔
ڈارٹمنڈ فلم فیسٹیول میں فلسطینی ہدایت کاراؤں کی فلمیں:
ایک فلسطینی نوجوان دارا خادر اگرچہ فن تعمیر کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران انکے اندر فلم سازی کی تکنیک سے بہت زیادہ شغف پیدا ہوا۔ ان کا تعلق فلسطین کی نوجوان خواتین کے ایک گروپ سے ہے جو وہاں کونفیشن یعنی اعتراف نامی ایک پروجیکٹ سے منسلک ہیں ۔ انھوں نے ڈارٹمنڈ کے فلم میلے میں دکھائی جانے والی اپنی فلم کے بارے میں بتایا کہ :یہ فلم دراصل ایک لڑکی کے بارے میں ہے جس کی ہر نقل و حرکت پر اسکے بوائے فرینڈ کی نظر رہتی ہے۔ وہ ہر وقت اس پر کڑی نظر رکھتا ہے جبکہ یہ لڑکی ہر طرح کے کاموں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ خود اپنی زندگی بنانا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی خواہش اور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے بوائے فرینڈ کی طرف سے اس پر ہر طرح کی پابندی اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ یہ اس سے چھٹکارا حاصل کرے اور اس کے زیر دباؤ رہنے سے انکار کردے۔
دارا خادر کا پروجیکٹ کونفیشن دراصل خواتین کے فلمی میلے اور رملا میں قائم گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے اشتراک عمل سے کام کر رہا ہے۔ اس پروجیکٹ کی طرف سے 5 شارٹ یا مختصر دورانیے کی فلمز فلسطین کی خواتین کی نئی نسل کے نام منسوب کی گئی ہیں۔
ان فلموں کو حال ہی میں ڈارٹمنڈ منعقدہ ایک لڑکیوں کے ورکشاپ "Girls Focus"میں دکھایا گیا۔ خادر کے مطابق ان فلموں میں مسئلہ فلسطین کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہے تاہم اس میں خواتین کو میسر محدود آزادی کے موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
مردوں کی روایتی اجارہ داری والے فلسطینی معاشرے کی اقدار سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کو ایک انوکھے انداز سے اپنی فلم کا موضوع بنایا ایک اور فلسطینی نوجوان لیلی کیلانی نے بھی۔
وہ اپنی فلم کے بارے میں کہتی ہی کہ ان کی فلم کا موضوع دراصل نوجوانوں اور انکے والدین کے مابین تعلقات ہے۔ تاہم انکی فلم میں آزادی کا موضوع بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ فلسطینی ثقافت اور معاشرت میں ایک بات نہایت عجیب ہے وہ یہ کہ والدین اپنی بیٹیوں کی ہر بات کا جواب نہیں میں دیتے ہیں۔ لڑکی جو بھی کہے، اس پر غور کیے بغیر اس کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر انکار کر دیتے ہیں۔ لیلی کی یہ فلم ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو رقص کا شوق رکھتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا کلاسیکی رقص سیکھے لیکن اس کے والد اسے اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ آزاد فضا میں رقص کرے۔ اسے آزادی حاصل ہو۔
ڈارٹمنڈ فلمی میلے کی انتظامیہ کے تاثرات:
Silke Räbiger خواتین کے فلمی میلے کی انتظامیہ کی سربراہ ہیں۔ انکے مطابق ان دونوں فلموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں کتنی سنجیدگی اور مضبوطی سے آزادی نسواں کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چند سالوں قبل اس فلم فیسٹیول کا موٹو تھا " No place like Home " یعنی گھر جیسی کوئی جگہ نہیں۔ اور اس بار انھوں نے "سرحدوں اور ترک وطن" کے موضوع پر بہت توجہ مرکوز کی۔ ڈارٹمنڈ فلم میلے کی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ اس بار کے فلمی میلے کا موضوع آزادی رکھا جائے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کے کہ دنیا کے مختلف معاشروں کی نوجوان فلمساز اور ہدات کارائیں آزادی کے موضوع کو رائے عامہ کے سامنے لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔
زلکے نے بتایا کہ ایک فلم سیریل کا عنوان ہے Under Control جس میں زیر حراست یا مقید انسانوں کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم اس سیرئیل میں انھوں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں کی ذات کے اندر پائے جانے والا آزادی کا احساس کتنا مثبت ہوتا ہے۔
ایک چینی فلم ہدایت کارہ کا جرمنی میں فلم بنانے کا تجربہ:
ایک چینی فلم ہدایت کارہ Fu Qiong نے گزشتہ برس جرمن شہر ڈارٹمنڈ میں ایک دستاویزی یا ڈوکیومنٹری فلم بنائی جس کا نام تھا فیسز ڈارٹمنڈ ۔ اس پرمزاح اور متاثرکن فلم میں چینی ہدایت کارہ نے شہر ڈارٹمنڈ کا پوٹرے یا خاکہ دکھایا ہے فو کیونگ نے ماضی کے کوہکنوں سے لے کر ڈاٹمنڈ میں آباد فٹ بال فینز تک دکھائے ہیں۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران کیونگ کو یہ اندازہ ہوا کہ اکثر جرمنی کے اندر چین کے مقابلے میں کم آزادی پائی جاتی ہے، خاص طور سے اس کا اندازہ سڑکوں پر فلم بناتے ہوئے ہوتا ہے۔
چینی ہدایت کارہ کے بقول جرمنی میں فلم بنانا مشکل ہے کیوں کہ پہلے تو یہاں لوگوں سے اجازت لینی پڑتی ہے کہ آیا انہیں کیمرے میں فوکس کیا جائے یا نہیں۔ چین میں یہ معاملہ آسان ہے۔ وہاں تصویر وغیرہ سے متعلق کوئی قوانین نہیں پائے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو فلم کی شوٹنگ میں آنے سے اختلاف ہوتا ہے تو وہ بغیر کچھ کہے کیمرے کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے۔ یا کچھ لوگ کیمرے سے خوفزدہ ہوتے ہیں تاہم چینی باشندے اپنی فلم یا تصویر سے متعلق قانونی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتے انہیں اسکی ہر گز پرواہ نہیں ہوتی۔
ڈارٹمنڈ فلم فیسٹیول کی منتظمین کا مقصد دراصل فلم سازی کے فن میں عورتوں کی کارکردگی اور مہارت کو منظر عام پر لانا ہے شروع شروع میں انکی توجہ خواتین کے امور سے متعلق سیاسی موضوعات پر مرکوز تھی تاہم اب انکی فنی اور تکنیکی مہارت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بار کے خواتین کے فلمی میلے کی افتتاحی تقریب میں کینیڈا کی ہدایتکارہ Lea Pool کی فلم Mommy is at the Hairdressers" " دکھائی گئی۔ جو ایک ایسی فیملی کی کہانی ہے جس میں ماں اپنے خاندان کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اس فلم کا موضوع خواتین یا مردوں، لڑکے یا لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ اس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ماں کے فیملی چھوڑ کر چلے جانے سے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تعمیری فن کے جذبے کا فقدان پاکستانی فلموں اور ڈراموں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ ہے:
پاکستان کی فلموں کے مقابلے میں ٹی وی ڈرا موں نے بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ پاکستانی ٹی وی ڈرامے کو جدید اور ترقی پسند بنانے والی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ساحرہ کاظمی ہیں۔ ساحرہ کاظمی پاکستان میں فلم اور ڈرامے کی موجودہ صورتحال پر کسی حد تک مایوس ہیں۔ ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ساحرہ کاظمی نے کہا کہ پاکستان میں گرچہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجواوں کی کمی نہیں تاہم بہت زیادہ چینلز کے شروع ہونے سے کمرشلزم بہت بڑھ گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈرامے اور میوزک کی روایات بہت پرانی تھیں۔ ٹیلی ویژن آنے سے پہلے پاکستان میں بننے والی فلمیں بہت مصنوعی اور سطحی ہوا کرتی تھیں۔ ٹیلی ویژن پر کام کرنے والوں کو موقع ملا کہ وہ ڈراموں میں اصلی زندگی کے کرداروں کے زریعے حقیقت پر مبنی ڈرامے بنائیں۔ ساحرہ کاظمی کے مطابق Visual Media میں کہانی کچھ بھی ہو اسے حقیقی انداز میں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مغربی فلموں کی کامیابی کا اصل راز یہ ہے کہ ان میں دکھائے جانے والے کردار بہت اصلی نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں کلاسیکی ڈراموں کی طرف سے رجحان ہٹتا چلا گیا اور انڈیا کے ڈھنگ پر ہراس موضوع پر چلتے پھرتے ڈرامے بننے لگے جو مقبول تو ہوجاتے ہیں تاہم ان میں کوئی فلسفہ، کوئی سوچ یا سنجیدہ پیغام نہیں ہوتا ہے۔ ساحرہ کاظمی کہتی ہیں کہ پاکستان کی فلمسازوں اور ہدایت کاراؤں کو ایرانی خواتین سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ایرانی خواتین کی بنائی ہوئی فلموں نے عالمی سطح پر جس قدر شہرت حاصل کی ہے اس میں ہدایت کاراؤں اور خواتین فلم سازوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ساحرہ کاظمی کے مطابق گزشتہ 10 سالوں کے اندر پاکستان میں خواتین کو ہر شعبے میں غیر معمولی آزادی ملی ہے۔ لیکن انکے اندر کمٹمنٹ کی کمی پائی جاتی ہے۔
بانو قدسیہ، انور مقصود، امجد اسلام امجد اور فاطمہ ثریا بجیا والا زمانہ ختم ہوگیا: ساحرہ کاظمی مایوس۔ (ساحرہ کاظمی کے ساتھ کشور مصطفی کی بات چیت سننے کے لئے نیچے دیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیے)