1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی دفاعی بجٹ میں اضافہ، ’پُر امن دفاع کی پالیسی‘

6 مارچ 2013

چین اس سال اپنے دفاع پر 90 ارب یورو کے برابر رقم خرچ کرے گا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ رقم 10.7 فیصد زیادہ ہے۔ اِس طرح زیادہ دفاعی اخراجات کے اعتبار سے دنیا بھر میں امریکا کے بعد چین دوسرے نمبر پر ہے۔

https://p.dw.com/p/17rJ3
تصویر: picture-alliance/dpa

چین اپنی ’پُر امن دفاع کی پالیسی‘ کو اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کا جواز بتاتا ہے۔ منگل چار مارچ کو بیجنگ میں شروع ہونے والی نیشنل پیپلز کانگریس کی خاتون ترجمان اور نائب چینی وزیر خارجہ فُو ژِنگ نے کہا کہ کسی دوسرے ملک کو چین کی جانب سے فوجی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

غالباً چینی قیادت فوجی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے تنقیدی سوالات کو پسند نہیں کرتی۔ نائب چینی وزیر خارجہ فُو نے کہا:’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے چین کو ہر سال دُنیا کو یہ وضاحت دینا پڑے گی کہ اُسے کیوں اپنے دفاع کو مضبوط تر بنانا اور فوجی بجٹ میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

چین گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال اپنے دفاع پر 10.7 فیصد زیادہ پیسہ خرچ کرے گا
چین گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال اپنے دفاع پر 10.7 فیصد زیادہ پیسہ خرچ کرے گاتصویر: Reuters

2005ء سے لے کر 2009ء تک چین کے دفاعی بجٹ میں اضافے کی سالانہ شرح 15 اور 20 فیصد کے درمیان رہی ہے تاہم اب کچھ برسوں سے 10 تا 11 فیصد کی شرح پر رُکی ہوئی ہے۔ پروفیسر Xuewu Gu بنیادی طور پر چین سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل بون یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین اُسی راستے پر گامزن ہے، جو اُس سے پہلے دیگر ممالک نے اختیار کیا ہے یعنی وہ اپنی افواج کو جدید خطوط پر اُستوار کرنا چاہتا ہے۔ اُن کے خیال میں دیگر ممالک کا چین کے دفاعی بجٹ پر نظر رکھنا قابل فہم ہے لیکن اس اضافے کو حد سے زیادہ اہمیت دینا بھی مناسب نہیں ہے۔

برلن میں سائنس اور سیاست کی فاؤنڈیشن سے وابستہ سلامتی کے امور کی ماہر خاتون نادینے گوڈن ہارٹ بتاتی ہیں:’’چین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی افواج کو جدید تر بنانا چاہتا ہے اور اُن کے ڈھانچوں میں تبدیلیاں لانا چاہتا ہے۔ یہ بہت ضروری بھی ہے کہ افواج کی تعداد کم کی جائے، مخصوص شعبوں میں زیادہ فوجی مہارت کا راستہ اختیار کیا جائے اور اَفواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جائے تاہم چین کے ہمسایہ ممالک، ظاہر ہے اس ساری پیشرفت کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔‘‘

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا کے مطابق نئے ہتھیار خریدے جائیں گے اور پیپلز لبریشن آرمی کو دہشت گردی اور مختلف قسم کی قدرتی آفات کے خلاف جنگ کے قابل بنانے کے لیے خصوصی مہارت سے لیس کیا جائے گا۔

بون یونیورسٹی کے عالمی علوم کے مرکز کے اندازوں کے مطابق چین کے دفاعی اخراجات اُس کی مجموعی قومی پیداوار کا محض 1.3 تا 1.8 فیصد بنتے ہیں جبکہ جرمنی، فرانس ا ور انگلینڈ جیسے دیگر صنعتی ممالک میں یہ شرح 2.5 اور 3.5 فیصد کے درمیان ہے۔ امریکا تو گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 2.5 تا 3.5 فیصد اپنی اَفواج پر خرچ کرتا رہا ہے۔

بون یونیورسٹی سے وابستہ چینی پروفیسر Xuewu Gu
بون یونیورسٹی سے وابستہ چینی پروفیسر Xuewu Guتصویر: dapd

چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے علاقائی تنازعات کے سبب بحیرہء جنوبی چین میں سلامتی کی صورتِ حال بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ چونکہ چین اس سمندر میں بہت سے متنازعہ جزائر پر اپنی ملکیت ظاہر کر رہا ہے، اس لیے جاپان، ویت نام اور فلپائن میں چین پر ہونے والی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پروفیسر Xuewu کے مطابق ’چین کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے‘ کیونکہ محض اقتصادی ترقی کی مدد سے وہ متنازعہ علاقوں میں اپنے دفاعی سیاسی مفادات کو ابھی تحفظ نہیں دے پا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’چین خاص طور پر اپنی بحریہ کو توسیع دے رہا ہے۔ مزید بحری بیڑے تیار کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ چین اپنی اَفواج کے لیے مختص بجٹ میں کوئی کمی لائے گا۔‘‘

سلامتی کے امور کی ماہر جرمن خاتون نادینے گوڈن ہارٹ کے مطابق چین کے دفاعی بجٹ میں ’ابھی وہ رقوم شامل نہیں ہیں، جو ہتھیاروں کو جدید تر بنانے، مسلح پولیس اور چین کے نیم فوجی دستوں پر خرچ کی جائیں گی‘۔ چینی سلامتی کے ڈھانچے میں مسلح پولیس کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ یہ پولیس دیگر فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ چین کی بیرونی سرحدوں کی بھی حفاظت کرتی ہے اور بڑے جرائم کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے بھی سرگرم رہتی ہے۔

H.Cao/aa/aba