چینی اپنے گاؤں چھوڑ رہے ہیں
17 جنوری 2012چین کو صدیوں سے بنیادی طور پر زرعی معاشرے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے چین کی اقتصادی ترقی سے یہ صورتحال بدل رہی ہے اور لوگ بہتر معاشی مستقبل کے لیے شہروں کا رُخ کر رہے ہیں۔ چین کی مجموعی آبادی قریب ایک ارب 35 کروڑ ہے، جس کا 52 فیصد اب شہروں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ چین کے قومی ادارہ برائے شماریات کے مطابق شہری آبادی 690 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔
چین کی نانکائی یونیورسٹی میں تحقیقی ادارہ برائے آبادی و ترقی سے وابستہ لی جیانمن کا کہنا ہے کہ اربنائزیشن ( آبادی کا شہروں کی جانب رخ کرنا) ایک ناقابل واپسی عمل ہے اور اگلے بیس برسوں میں چین کی آبادی کا 75 فیصد شہروں میں رہنے لگے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے چینی معاشرے، ماحول اور اقتصادی ترقی پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی خبریں عام ہیں کہ بہت سے کسانوں سے ان کی زمینیں لے کر انہیں جبری طور پر شہر کا رخ کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 1982ء میں ہر پانچ میں سے محض ایک چینی شہر میں رہتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تناسب بدلتا رہا اور شہروں میں رہنے والوں کی تعداد دیہی آبادی سے زیادہ ہو گئی۔ ماہرین کے بقول اس کی وجہ سے دستیاب وسائل کی طلب بڑھ جائے گی۔ نئے شہر بسانے کے دوران پانی، توانائی، آمد و رفت اور انفراسٹرکچر کی ضروریات پوری کرنے میں ماحول پر پڑنے والے اثرات نظر انداز کیے جاسکتے ہیں۔ چین کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اثرات عالمی نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔
شہروں کا رخ کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق اندرون ملک کی اس افرادی قوت سے ہے جو ملکی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار نبھا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ نکتہ اہم ہے کہ بڑے شہروں میں ان افراد کو بہت زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور کئی جگہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ میں مقیم چینی امور کے ماہر جیفری کروٹھل کے بقول اس کے سبب بعض نوجوانوں میں غم و غصہ بڑھنے لگا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق