چینی اور بھارتی فوجیوں کے مابین جھڑپیں
11 مئی 2020بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان لداخ کے شمالی علاقے اور شمالی مشرقی ریاست سکّم میں مشترکہ سرحد پر جھڑپیں ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سکّم میں نکولا سیکٹر کے پاس سرحد پر ہونے والی جھڑپوں میں سات چینی فوجی اور چار بھارتی فوجی زخمی ہوئے تاہم دونوں جانب کے سینئر فوجی افسران کی مداخلت کے بعد معاملہ حل ہوگیا۔
حکام کے مطابق پہلا واقعہ پانچ مئی کو لداخ میں سرحد پر واقع معروف پینگ یانگ جھیل کے پاس پیش آیا جب کہ دوسرا سکّم کے نکولا سیکٹر میں نو مئی کو پیش آیا تھا۔ بھارتی میڈیا میں ایک فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ''فوجیوں کے جارحانہ رویے کے سبب دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوا جس کی وجہ سے دونوں جانب کے فوجیوں کو معمولی زخم آئے ہیں۔ مقامی سطح پر بات چیت اور سینئر افسران کے درمیان تبادلہ خیال کے بعد یہ جھگڑا ختم ہوا۔'' فوجی ذرائع کے مطابق سکّم میں جب یہ واقعات پیش آئے اس وقت دونوں جانب کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
فوجی حکام کے مطابق مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ مشترکہ سرحد پر جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں سرحد کی باقاعدہ نشاندہی نہیں ہے۔ مشرقی لداخ کی سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان پیونگ یانگ جھیل ہے جس کے بیشتر حصے پر چینی فوج کو اختیارات حاصل ہیں اور اس کا ایک حصہ بھارت کے پاس ہے۔ حکام کے مطابق ماضی میں بھی ایسے مقامات پر دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوتی رہی ہے۔
لداخ میں بھی جھگڑا ہونے کی وجہ سے دونوں جانب کے فوجیوں کو معمولی زخم آئے تاہم کسی بھی جانب سے فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک فوجی ترجمان کے مطابق چھ مئی کی صبح کو سینئر فوجیوں کو جب اس کا پتہ چلا تو دونوں کے بات چیت ہوئی اور فریقین میں کشیدکی ختم ہوگئی۔
بھارتی محکمہ دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان مشترکہ سرحد پر ایسی صورت حال پیدا ہونے کی صورت میں اختلافات حل کرنے کا ایک نظام پہلے ہی سے موجود ہے اور جب بھی فوجی آپس میں الجھتے ہیں تو اسی کے تحت اسے حل کر لیا جا تا ہے۔ ''لیکن اس بار کافی عرصے کے بعد اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آیا۔''
بھارت اور چین کے درمیان تقریبا ًساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی طویل سرحد ہے اور بہت سے علاقوں کے سلسلے میں اب بھی اس بات پر تنازع ہے کہ کس حد تک کس کو اختیارات حاصل ہیں۔ دونوں جانب کی فوجیں سرحد پر مسلسل گشت پر رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر اپنے علاقے میں داخل ہونے کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق چین کے پاس سرحدوں کے آس پاس سڑکوں کا بہترین نظام ہے جس کی وجہ سے چینی فوجیوں کی نقل و حرکت آسان ہے اور وہ جب چاہیں فوج کی اضافی ٹکریاں طلب کر سکتے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سرحدوں کے پاس روڈ مخدوش حالت میں ہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے کے حوالے سے سن 1962 میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ 2018 میں بھی بھوٹان سے متصل متنازعہ علاقے ڈوکلام کے تعلق سے بھارت اور چین کی فوجیں آمنے سامنے آگئی تھیں۔ حالانکہ ڈوکلام کے سطح مرتفع پر بھوٹان کا دعوی ہے تاہم بھارت اور بھوٹان کے درمیان ایک دفاعی معاہدے کے تحت جب چین نے اس علاقے میں سڑک کی تعمیر شروع کی تو بھارت نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ اس تنازعے پر کئی روز کی گفت و شنید کے بعد بھارت نے اپنی فوجیں واپس بلا لی تھیں۔
سن 2018 میں ووہان میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان اس سلسلے میں بات چیت کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کم و بیش حالات بہتر ہوئے ہیں۔