1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قدیم تاریخ، چین کا ایک اہم ’نفسیاتی ہتھیار،

6 جنوری 2021

صحافی بل ہیٹن نے اپنی نئی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک بہت بڑے حلقے میں چین کو ایک ہزار سالہ پرانی ریاست کے طور پر سمجھنے کا عمل محض ایک غلط فہمی ہے۔ انہوں نے چینی قوم کے تعمیراتی عمل کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کی۔

https://p.dw.com/p/3nZm1
Bill Hayton, Autor & Asienexperte
تصویر: Bill Hayton

صحافی اور مصنف بل ہیٹن نے اپنی نئی کتاب ''دی انونشن آف چائنا‘‘ میں چینی قوم کے تعمیراتی عمل کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ چینی تاریخ نویسی کے عمل میں قوم پرست ذہن کے حامل دانشوروں اور 'ایکٹیوسٹس‘  نے کس طرح انیسویں اور بیسویں صدی کے مغربی نظریات کو مستعار لے کر چین کی تاریخ کی ایک ایسی تصویر پیش کی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے۔ جبکہ بل ہیٹن کا ماننا ہے کہ چین کی اتنی پرانی تاریخ کبھی بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین کے دانشوروں نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ مغرب کے زبان، علاقے، لوگ اور تاریخ کے تصور کو لے کر اس کے مطابق  چین کی تاریخ کی تصویر کشی کی ہے۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بل ہیٹن نے چین کی قومیت کے تعمیراتی عمل کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین کا قومی تعمیر کا نظریہ کس طرح دوسرے ممالک کو متاثر کرتا ہے اور جمہوری اقوام کو کس طرح قوم پرست بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر رد عمل ظاہر کرنا چاہیے۔

چین میں قوم کی تعمیر کا عمل کب شروع ہوا؟

ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بل ہیٹن نے  اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیونسٹوں کی فتح کے بعد 1945ء سے 1949ء کے دوران چینی خانہ جنگی کے دوران، کارل ماکس  کا نظریہ سب سے اہم عنصر بنا۔ تاہم اس نے قوم کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ایک وہ جو اس کے مخالف تھے اور دوسرے وہ جو اس انقلاب کے لیے لڑ رہے تھے۔

BG Jahresrückblick 2019
تیانمن اسکوائر۔تصویر: Reuters/J. Lee

1989ء میں تیانمن اسکوائر پر ہونے والے احتجاج اور ہلاکتوں کے بعد ایک کوشش کی گئی چینی قوم کی نئی تشریح کی اور تائیوانی باشندوں اور ان دیگر افراد کو جو اس خانہ جنگی میں شکست خوردہ تھے، انہیں واپس قوم میں شامل کرنے کی ۔

حال ہی میں صدر شی جنگ پنگ نے چینی قوم کی ایک نئی تشریح پیش کرتے ہوئے نسلی اقلیت سمجھے جانے والے تمام گروپوں کو واحد چینی قوم میں شامل کرنے کی کوشش کی جیسا کہ تبتی باشندے اور ایغور نسلی گروپ۔ بل ہیٹن  کے مطابق چینی قوم کا نظریہ کافی حد تک بدل چکا ہے۔ چینی صدر اس امر کی وضاحت کے لیے ایک جدوجہد کر رہے ہیں کہ آیا چین ایک واحد قوم ہے یا چین 56 مختلف قوموں پر مشتمل ہے؟ دونوں ہی کے لیے چینی لفظ ' منسو‘ استعمال ہوتا ہے۔ شی چینی قوم کی وحدانیت کے تصور اور اس میں شامل ہونے کے طریقہ کار کو مسلط کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کریں گے۔

 چین کی تاریخ ہزار سال قدیم ہونے کا تصور کیوں غلط ہے؟

ڈی ڈبلیو کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بل ہیٹن نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی ثقافت میں جو تسلسل پایا جاتا ہے وہ بہت قدیم ہے اور یہ بھی درست ہے کہ جدید دانشور بہت پرانی تحریروں کو پڑھ سکتے ہیں اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی زبان خاص طور سے 'تحریری‘ بہت قدیم ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ 'چینی قوم‘ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ بل ہیٹن کے مطابق، ''ایک قوم کے گرد ہمیشہ سرحدی حدود قائم ہوتی ہیں اور چین کے علاقائی حدود کی وضاحت گزشتہ صدی میں کی گئی اور اب بھی اس کی دوبارہ وضاحت کی جا رہی ہے‘‘ ۔ صحافی بل ہیٹن کا ماننا ہے کہ زرد اور ژانگسی دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی چین کی بنیادی ''ثقافتی حدود‘‘ جس پر چین کے قوم پرست ''بنیادی چین‘‘ کے طور پر نظر ڈالتے ہیں وہ آج کے چین کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''گزشتہ پانچ ہزار سال کے اہم ادوار پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہاں الگ الگ ریاستیں پائی جاتی تھیں اور مختلف نسلوں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے انسان آباد تھے جو اب چین کی سر زمین پر رہتے ہیں۔ ہم تو صرف تبتی اور ایغور نسل کی بات کرتے ہیں جبکہ مانچوس اور صوبے یوہان کے باشندے یہاں آباد تھے۔ ان کی مختلف ریاستیں تھیں اور یہ مختلف بولیاں بولتے تھے ان کی ثقافتیں بھی مختلف تھیں۔‘‘ بل ہیٹن کا کہنا ہے کہ 'چینی واحد ریاست‘  اور قوم کی قدیم تاریخ کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔   

     

Hongkong Pro-Demokratie Aktivisten
ہانگ کانگ میں جمہوریت نوازوں کا احتجاج۔تصویر: May James/AFP/Getty Images

چینی کمیونسٹ پارٹی ان تصورات پر کیوں قائم ہے؟

بل ہیٹن اس بارے میں کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے لیے چینی قوم کے تصور کو ماضی اور قدیم تاریخ سے مسلسل جوڑے رکھنا اس لیے اہم ہے کہ اس طرح وہ موجودہ دور کے مسائل اور چین کی صورتحال پر تنقید کو روک سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''اگر آپ لوگوں کو اس امر کا قائل کرسکیں کہ تمام معاملات ہمیشہ سے ایسے ہی تھے تو ان کے پاس یہ سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ مستقبل بھی ایسا ہی کیوں ہو؟‘‘

بیجنگ تبت اور سنکیانگ، یہاں تک کہ ہانگ کانگ اور تائیوان جیسے مقامات پر بھی علیحدگی پسند جذبات کو دبانے کے عمل میں مصروف ہے اور اسے صرف اپنے ہی لوگوں اور ان علاقوں کے لوگوں کو نہیں بلکہ وسیع تر دنیا یعنی یورپ اور امریکا سمیت دیگر خطوں کے انسانوں کو بھی اس امر پر راضی کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ فطری ہے اور یہ کہ ''ایک چینی قوم موجود ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے۔‘‘

 کیا چین ایک نو آبادیاتی طاقت ہے؟

 

China Uiguren Olsi Jazexhi
سنکیانگ میں قائم ایک ایجو کیشن کیمپ کا دورہ کرنے والا ایک البانوی ایغور تاریخ دان۔تصویر: Olsi Jazexhi

بل ہیٹن کا کہنا ہے کہ چین نے جس طرح  اُن معاشروں کو جو ثقافتی طور پر بالکل مختلف ہیں، اپنی عمل داری میں لے لیا ہے اور انہیں زبردستی 'واحد شناخت‘ یعنی ایک قوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے واضح  ہے کہ یہ اندرونی طورپر ایک نو آبادیاتی طاقت ہے: ''بیجنگ اس پالیسی پر جس قدر وسائل اور رقوم صرف کر رہا ہے، دنیا میں کہیں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ خیال کہ آپ کئی ملین انسانوں کو دوبارہ تعلیم دینے کی کوشش کر سکتے ہیں، کوئی ایسی چیز نہیں جو ہم نے کبھی بھی کسی اور نوآبادیاتی صورتحال میں دیکھی ہو۔‘‘

بل ہیٹن ایک انگریزی تھنک ٹینک چیتم ہاؤس کے ایسو سی ایٹ فیلو بھی ہیں۔ ان کے خیال میں قوم پرست چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف تمام جمہوری ریاستوں اور اقوام کو اپنی اقدار اور عقائد پر قائم رہنا ہوگا اور احتلاف رائے رکھنے اور اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرنے کے حق کے لیے اصرار کرنا ہوگا۔

ک م / ا ب ا (روڈیون ایبنگ ہاؤزن)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں