1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین نے بھی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی تجویز ٹھکرا دی

29 مئی 2020

چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعے کے حل کے لیے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کو یہ کہہ کرمسترد کر دیا ہے کہ اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3cxq0
Indisch-Chinesische Grenze Grenzpass
تصویر: Getty Images

چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے مسئلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو جمعہ 29 مئی کو مسترد کردیا۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجان نے کہا کہ چین اور بھارت مذاکرات اور آپسی صلاح و مشورے سے اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''چین اور بھارت کے درمیان سرحد سے متعلق ایک میکنزم اور رابطے کا چینل پہلے سے موجود ہے۔ ہم اسے بات چیت کے ذریعے آپس میں مناسب طریقے سے حل کرنے قابل ہیں۔ ہمیں اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔''

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اورچین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر حالات کو کشیدہ قراردیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی اورکہا تھا کہ وہ اسے پر امن طریقے سے حل کرانے کے لیے نہ صرف ثالث بننے کو تیار ہیں بلکہ اس کی خواہش اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

اس سے قبل بھارت نے بھی صدر ٹرمپ کی پیش کش کو بالواسطہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی دہلی اس مسئلے کو پرامن طریقے پر حل کرنے کے لیے بیجنگ کے ساتھ بات چیت کررہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے گزشتہ روز اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت چین کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت میں پہلے ہی سے مصروف ہے۔

دریں اثنا بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر مودی حکومت کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد پر موجودہ حالات کے بارے میں سبھی کو آگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور صورتحال کو راز میں رکھنے سے قیاس آرائیوں کو مزید ہوا ملے گی۔

BRICS Forum in Brasilien
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Z. Ling

پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سے متعلق حقائق عوام کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے لکھا، ''بحران کے دور میں چین کے ساتھ سرحد کے حالات کے بارے میں حکومت کی خاموشی وسیع پیمانے پر قیاس آرائیوں کو پنپنے کا موقع دے رہی ہے۔ بھارتی حکومت کو اس پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔''

 اس تنازعہ پر بھارتی وزارت خارجہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں بعض سوالات کے جوابات دیتا رہا ہے تاہم حکومت یا پھر اعلی قیادت کی جانب سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اس تنازع سے متعلق بھارتی ذرائع ابلاغ میں بھی ہر روز 'نامعلوم ذرائع'  کے حوالے سے بہت سی خبریں سہ سرخیوں میں رہتی ہیں اور ٹی وی پر بحثیں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن حکومت بالکل خاموش ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے سفارت کاری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ تقریبا ًتین ہفتوں سے بھارت اور چین کی فوجیں شمال مشرقی ریاست سکّم اور لداخ کے سرحدی علاقوں پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ان علاقوں میں دونوں جانب سے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہاتھا پائی جیسے بعض واقعات میں دونوں جانب کے فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تمام کوششوں کے باوجود اب تک کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں