چین میں پھیلنے والا نیا وائرس پاکستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ؟
7 جنوری 2025طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ ہیومن میٹانیومو وائرس (ایچ ایم پی وی ) کووڈ انیس جتنا مہلک نہیں تاہم احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں یہ بچوں اور عمر رسیدہ افراد کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ہیومن میٹانیومو وائرس کیا ہے؟
ہیومن میٹانیومو (ایچ ایم پی وی ) ایک ایسا وائرس ہے، جو سانس کی اوپر اور نچے کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس ہلکے نزلہ و زکام سے لے کر سانس کی شدید بیماریوں تک کا باعث بن سکتا ہے۔ طبی ماہر ڈاکٹر فضل ربی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس سانس کی نمی، براہ راست رابطے اور آلودہ سطحوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ بیماری خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔
سن دو ہزار ایک کی ایک تحقیق کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سانس کی شدید بیماری سے ہونے والی اموات میں سے ایک فیصد کیسز ہیومن میٹانیومو وائرس سے جڑے ہوئے تھے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائرولوجسٹ اور ڈاکٹر علی زوہیب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وائرس کو پہلی بار دو ہزار ایک میں نیدرلینڈز میں سانس کی نالی کے انفیکشن میں مبتلا بچوں میں دریافت کیا گیا تھا۔
کیا ایچ ایم پی وی وائرس نئی عالمی وبا کی شکل اختیارکر سکتا ہے؟
بیماریوں کی نگرانی کے ماہر ڈاکٹر فضل ربی کہتے ہیں کہ ہیومن میٹانیومو وائرس کے عالمی وبا بننے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ زیادہ تر سانس کی موسمی بیماریوں کا سبب بنتا ہے اور عموماً نوزائیدہ بچوں، بزرگوں اور کمزور قوت مدافعت والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس کم شدت کا حامل ہے اور اس کا پھیلا ؤ بھی محدود ہوتا ہے، یعنی ایک متاثرہ شخص سے زیادہ لوگوں میں نہیں پھیلتا۔
ڈاکٹر فضل ربی نے مزید بتایا کہ صحت کے نظام کی مضبوطی، عوامی آگاہی اور مناسب ویکسینز کی عدم دستیابی کے باعث یہ کسی مخصوص علاقے میں مقامی وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اس وائرس کا علاج کیا ہے؟
ڈاکٹر فضل ربی نے بتایا کہ اس وائرس کا کوئی مخصوص علاج یا ویکسین دستیاب نہیں ہے جبکہ اس کا علاج عموماً علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بخار اور جسمانی درد کے لیے پیراسیٹامول وغیرہ کا استعمال، پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرنا، آرام کرنا اور مناسب نیند لینا ضروری عوامل ہیں۔
دنیا اگلی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، عالمی جائزہ رپورٹ
اگر سانس کی تکلیف زیادہ ہو اور آکسیجن کی کمی ہو تو آکسیجن تھراپی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شدید نمونیا یا پھیپھڑوں کے شدید انفیکشن کی صورت میں ہسپتال میں داخلہ ضروری ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ، کمزور قوت مدافعت والے افراد کی اضافی نگرانی اور ممکنہ ثانوی بیکٹیریل انفیکشنز کے لیے اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ عام طور پر اس وائرس کے لیے اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس وائرس سے محفوظ کیسے رہیں؟
طبی ماہرین اس وائرس سے محفوظ رہنے اور انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھونے، چہرے کو چھونے سے گریز کرنے، ہجوم والے مقامات پر ماسک پہننے اور اگر طبیعت ناساز ہو تو گھر پر رہنے کی تجویز دیتے ہیں۔ یہ وائرس عام طور پر تین سے چھ دن تک جسم میں رہتا ہے اور زیادہ تر افراد بغیر کسی پیچیدگی کے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر علامات پیچیدہ ہوں تو زیادہ خطرہ والے افراد کو فوری طور پر طبی امداد حاصل کرنی چاہیے۔
ہیومن میٹانیومو وائرس کووڈ انیس سے کتنا مختلف؟
ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق ہیومن میٹانیومو وائرس عموماً ہلکی یا درمیانی شدت کی بیماریوں جیسے کھانسی، بخار اور سانس کی دقت کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس کووڈ انیس زیادہ سنگین اثرات پیدا کرتا ہے، جیسے نمونیا، اعضا کا کام کرنا بند کر دینا اور وہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے،خاص طور پر وہ افراد جو کمزور مدافعتی نظام رکھتے ہیں۔
کیا کورونا وائرس حیاتیاتی ہتھیار ہے؟
ہیومن میٹانیومو وائرس کی علامات عام سانس کی بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں جبکہ کووڈ انیس میں مخصوص علامات، جیسے کہ ذائقے اور سونگھنے کی صلاحیت کے متاثر ہونے جیسی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ دونوں وائرس قریبی رابطے، کھانسنے، چھینکنے، یا وائرس سے آلودہ سطحوں کو چھونے سے منتقل ہوتے ہیں مگر کووڈ کی منتقلی کی شرح ہیومن میٹانیومو وائرس سے زیادہ ہے۔
پاکستان اور بھارت میں ایچ ایم پی وی کی روک تھام کے لیے اقدامات
پاکستان کی وزارت صحت کے ترجمان ساجد حسین شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کا کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے اور حکومت نے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔
بھارتی وزارت صحت نے ریاست کرناٹک میں ایچ ایم پی وی کے دو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ یہ کیسز ایک تین ماہ کی بچی اور ایک آٹھ ماہ کے بچے میں رپورٹ ہوئے۔ وزارت نے واضح کیا کہ یہ وائرس پہلے ہی عالمی سطح پر گردش کر رہا ہے اور بھارت سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی اس سے جڑی سانس کی بیماریوں کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔