1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: قومی ’جذبات کو ٹھیس‘ پہنچانے والے ملبوسات غیر قانونی

18 ستمبر 2023

ایک نئے مسودہ قانون کے مطابق چینی عوام کے جذبات مجروح کرنے والے ملبوسات پہننے پر جیل اور جرمانے کی سزائیں ہو سکتی ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ نئے مبہم قوانین کو حکام اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہیں استعمال کر سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/4WTvh
Japan Seijin no Hi - Festtag der Volljährigkeit | Tokio
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon

چین میں جلد ہی قوم کے ''جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے‘‘ ملبوسات کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی کے لیے ایک حالیہ مسودے میں مبہم ترمیم کے نے مجوزہ قانون کی  تشریح اور نفاذ کی وسیع گنجائش پر تشویش کو جنم دیا ہے۔

اس مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ تقریر اور لباس دونوں کے ذریعے ''چینی عوام کی روح کے لیے نقصان دہ‘‘یا قوم کے ''جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘‘ کے نتیجے میں جرمانے کے علاوہ جیل کی سزا بھی ہو سکے گی۔

لیکن یہ مسودہ خاص طور پر اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ نئے قوانین کے ذریعے کس قسم کے لباس پر پابندی عائد کی جائے گی۔ بیجنگ کے ایک 23 سالہ رہائشی نے اے ایف پی کو بتایا، ''اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے اور فیصلے کیسے کیے جائیں، ابھی مزید وقت درکار ہو سکتا ہے اور ہمیں ایسی تجاویز کو آگے بڑھانے سے پہلے ہوش مندانہ فیصلے کے معیار کے تعین کی ضرورت ہے۔‘‘

China Peking Teresa Xu Prozess Künstliche Befruchtung
ناقدین کو خدشہ ہے کہ لباس سے متعلق نئے قانون کو اس کی مبہم تشریح کی وجہ سے بے جا استعمال کیا جائے گاتصویر: Florence Lo/REUTERS

اس چینی شہری نے خدشہ ظاہر کیا کہ  یہ قانون، جن جرائم پر گرفت کرتا ہے وہ ''ڈکیتی جیسے جرائم کی طرح واضح نہیں ہیں، جہاں صحیح اور غلط کا تعین ہوتا ہو۔‘‘ چین میں متعدد قانونی ماہرین  نے مذکورہ بنیادوں پر ہی اس مجوزہ قانون پر اس وقت  اعتراضات کیے تھے، جب  اس ماہ کے شروع میں اسے عوامی مشاورت کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

اس مسودہ قانون پر عوامی مشاورت کی مدت 30 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ سِنگ ہُوآ یونیورسٹی کے لاؤ ڈونگیان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر لکھا، ''اس سے سزا کا معیار بہت مبہم ہو جائے گا، جو آسانی سے انتظامی سزا کے دائرہ کار میں من مانی توسیع کا باعث بنے گی۔‘‘

چین میں پولیس پہلے ہی معمول کے مطابق ''جھگڑاکرنے اور کشیدگی کو ہوا دینے‘‘ کے وسیع الزام کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ایسے لباس یا بینرز کی وجہ سے سزا دیتی ہے، جنہیں سیاسی طور پر حساس سمجھا جاتا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا کہ جنوبی شہر شین زین میں ایک شخص سے اسکرٹ پہن کر لائیو اسٹریمنگ کرنے پر پولیس نے پوچھ گچھ کی تھی۔ اس واقعے کے بعد اظہار رائے کی انفرادی آزادی کے بارے میں بحث چھڑ گئی تھی۔ تاہم بہت سے آن لائن تبصرہ نگاروں نے اس معاملے میں قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کے مداخلت کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔ ایک تبصرہ نگار نے یہ بھی کہا تھا کہ اس شخص کا طرز عمل ''عمومی اخلاقیات کے لیے جارحانہ‘‘ تھا۔

China Xinjiang Uiguren
بیجنگ حکومت کو چینی اقلتی ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات کا بھی سامنا ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

خیال کیا جاتا ہے کہ بیجنگ حکومت یہ قانون سازی ان واقعات کے ردعمل کے طور پر کر رہی ہے، جن میں تاریخی طور پر اہم مقامات پر یا یادگاری دنوں میں لوگوں نے جاپانی لباس پہنا تھا۔

ایک خاتون نے بتایا کہ گزشتہ سال اسے پولیس نے مشرقی شہر سوزو میں کیمونو(جاپانی لباس) پہنے ہوئے فوٹو شوٹ کے دوران حراست میں لے لیا تھا۔ اس خاتون نے کہا کہ کوئی بھی لباس پہننا کسی بھی فرد کی ذاتی پسند اور آزادی کا مظہر ہوتا ہے۔

گو نامی ایک 35 سالہ شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ لوگوں کو ''خصوصی مواقع‘‘ پر جارحانہ لباس پہننےکے لیے قانونی طور پر جواب دہ ٹھہرائے جانے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں سمجھتا ہوں کہ مقامی لوگوں کے جذبات پر غور کیا جانا چاہیے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں، مثال کے طور پر، اگر کوئی کیمونو پہن کر صرف شاپنگ اسٹریٹ پر جاتا ہے، تو میرے خیال میں اس کے خلاف کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

ش ر ⁄  م م (اےایف پی)

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش