چین سے خطرہ برقرار ہے، بھارتی فوجی سربراہ
26 مارچ 2021بھارتی بری فوج کے سربراہ جنرل مکند منوج نروانے کا کہنا ہے کہ مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے علاقے میں کشیدگی کم ہونے کے باوجود چین کی جانب سے مکمل طور پر خطرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر سرحد کی حد بندی کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
نئی دہلی میں میڈيا کے ایک خصوصی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بھارتی فوجی سربراہ نے کہا،’’جب تک بڑے پیمانے پر کشیدگی میں کمی نہیں ہو جاتی اور متعدد مقامات سے جمع ہونے والی فوجیں، جو اس وقت سرحد کے انتہائی قریب حملہ کرنے کے فاصلے پر موجود ہیں، واپس نہیں چلی جاتیں اس وقت تک خطرہ برقرار ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ شمالی سرحد پر پینگانگ جھیل کے پاس کشیدگی تھی جسے کئی دور کی بات چيت کے بعد حل کر لیا گیا تھا۔‘‘ یہ بات چيت دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور دفاع سمیت کئی سطحوں پر ہوئی اور ہر دور میں بات چيت کا محور یہی تھا کہ اپریل 2020 ء سے پہلے کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔‘‘
چین اور بھارت نے حال ہی میں مشرقی لداخ کے ایک مقام سے فوجوں کو پیچھے کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب بھی کئی علاقوں میں دونوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گذشتہ برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادئی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے تقریباً دس ادوار ہو چکے ہیں تاہم اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔
پاکستان سے جنگ بندی معاہدے پر بات چيت
اس موقع پر بھارتی فوجی سربراہ نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی پر عمل کرنے کے حوالے سے جو بات چيت کی گئی ہے اس میں پاکستان کنتا سنجیدہ ہے اس کا اندازہ موسم گرما کے آغاز کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے اعلی فوجی حکام کے درمیان حالیہ بات چيت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا،’’دونوں جانب کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) کے درمیان بات ہوئی تھی اور اس میں 2003 ء میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کا عہد کیا گیا تھا۔ ‘‘
انہوں نے کہا،’’ مارچ کے پورے مہینے میں اب تک ایک واقعے کو چھوڑکر، لائن آف کنٹرول پر کوئی بھی فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ گذشتہ تقریباً پانچ یا چھ برسوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ ایل او سی پر اس طرح کی خاموشی ہے۔ مستقبل کے لیے یہ ایک اچھا شگون ہے۔ سرحد پر امن و سکون کا غلبہ ملک کے امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگا۔‘‘
ان پیش رفت کے باوجود بھارتی فوجی سربراہ نے بھارت کے اس روایتی موقف کا اعادہ کیا کہ سرحد کے اس پار دہشت گردی سے متعلق انفرا اسٹرکچر اور شدت پسند اب بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا،’’ پاکستان اس جنگ بندی کے تئیں کتنا سنجیدہ ہے یہ دیکھنے کے لیے ہمیں برف پگھلنے تک کا انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں بھارتی فوجی سربراہ نے کہا کہ چونکہ پاکستانی فوج بھی اس بار ساتھ میں ہے اس لیے پر امید ہونے کی بھی وجوہات ہیں۔’’مستقبل کے تئیں پُرامید رہنے کی وجوہات ہیں۔ ہمیں اس پر کسی پختہ تجزیے سے پہلے انتظار کر کے یہ دیکھنا ہوگا کہ پیش رفت کیسی رہتی ہے۔‘‘
کشمیر کی صورت حال
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی سخت سکیورٹی کا پہرہ ہے اور اب بھی بہت سی بندشیں عائد ہیں۔ تاہم بھارتی فوجی سربراہ کا دعویٰ ہے کہ وہاں حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی کے لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں کشمیر کے حالات اب بہت بہتر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں نوجوان سوشل میڈیا کی وجہ سے عسکریت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں تقریباً دو برس بعد انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بحال کیا گيا ہے۔