1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین۔ بھارت سرحدی تنازعہ: فوجی مذاکرات ایک بار پھر ناکام

جاوید اختر، نئی دہلی
11 اکتوبر 2021

بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ 17 ماہ سے سرحد پر جاری فوجی  کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے 13ویں دور کی بات چیت بھی ناکام ہو گئی۔ فریقین نے مذاکرات کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

https://p.dw.com/p/41WEn
اروناچل پردیش میں بھارت۔چین سرحد
اروناچل پردیش میں بھارت۔چین سرحدتصویر: Anupam Nath/AP/picture alliance

بھارتی فوج نے پیر 11 اکتوبر کو نئی دہلی میں جاری ایک بیان میں کہا کہ اس اجلاس میں فریقین نے مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کی،''تاہم چینی حکام نے ہماری تجاویز قبول نہیں کیں اور نہ ہی وہ کوئی قابل غور تجویز پیش کر سکے۔"

بھارتی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کی جانب سے باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے اور صورت حال کو تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوششوں کی وجہ سے سرحد کی متنازعہ صورت حال کے بارے میں بھارتی حکام نے اپنا موقف دہرایا اور اس بات پر زور دیا،''چین مناسب اقدامات کرے تاکہ مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر امن اور خیر سگالی بحال ہو سکے۔"

بھارت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ اقدمات دوشنبے میں گزشتہ دنوں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ہونے چاہییں، جہاں دونوں رہنماؤں نے تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے پر زور دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں بڑے ڈھانچے تیار کر لیے
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں بڑے ڈھانچے تیار کر لیےتصویر: AFP/Maxar Technologies

چین نے کیا کہا؟

چین نے بھی بات چیت ناکام ہو جانے کا اشارہ دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا،”بھارت نامناسب اور غیر حقیقی مطالبات پر مصر رہا، جس کی وجہ سے بات چیت دشوار ہو گئی۔"

چینی فوجی ’اتر اکھنڈ میں داخل ہوئے‘، مگر بھارت خاموش کیوں؟

چین کی فوج  کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ بھارت صورت حال کو سمجھنے میں غلطی نہیں کر ے گا، سمجھداری اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات کرے گا اور سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام کی حفاظت کے لیے مل جل کر کام کرے گا۔

سترہ ماہ سے حالات کشیدہ

لداخ میں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔سرحد پر چار مقامات سے افواج کی مرحلہ وار واپسی کے بعد ایک بار پھر دونوں ملکوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بلند پہاڑوں پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں۔

دونوں ملکوں نے حقیقی کنٹرول لائن کے آس پاس تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔

دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوکہ بعض مقامات سے چینی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن اہم ٹھکانوں پر وہ اب بھی موجود ہیں۔اس نئے انفرا اسٹرکچر میں ہیلی پیڈ، نئے بیرک، زمین سے فضا میں میزائل داغنے والے مقامات، ریڈار کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چین نے نئے پل اور سڑکیں بھی تعمیر کر لی ہیں۔

ماہرین کے مطابق بھارت نے بھی اپنے حصے میں ایل اے سی پر اپنے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔

Indien Kaschmir Soldaten an der Grenze zu China
تصویر: picture-alliance/AA/F. Khan

بھارتی فوج تیار ہے، آرمی چیف

بھارت ذرائع کے مطابق چند دنوں قبل ہی چینی فوج نے اتراکھنڈ کے بارہ ہوٹی اور اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں دراندازی کی تھی۔ چین کے تقریباً 100 فوجی اتراکھنڈ میں بھارتی علاقے میں داخل ہو گئے تھے۔

 بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ چین نے سرحد پر یہ صورتحال کیوں پیدا کی،”لیکن جو کچھ ہوا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس سے انہیں کچھ حاصل ہو سکا ہے کیونکہ بھارتی مسلح افواج نے ان کو تیزی سے جواب دیا۔"

لداخ: چین ایک اور مقام سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر متفق

بھارتی آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ اگر چینی فوج لداخ میں اپنی فوج کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو بھارتی فوج بھی ایسا ہی کرے گی۔"

بھارت کا لداخ تک سرنگوں کا جال بچھانے کا منصوبہ