1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور پر تنقید، مداحوں کی بھی کمی نہیں

عبدالستار، اسلام آباد
17 جنوری 2019

پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے طور پر سرکاری ذمے داریوں کا آج جمعرات سترہ جنوری کو آخری دن ہے۔ ان کے اس عہدے کی مدت پر پاکستان میں کئی حلقے واضح تنقید کر رہے ہیں تو کئی تعریف بھی۔

https://p.dw.com/p/3BjET
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستان میں موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ملک کے کئی حلقوں میں ان کی طرف سے کیے جانے والے عدالتی اقدامات اور ان کی شخصیت پر بحث جاری ہے۔ کئی حلقے ان کے سخت ناقد بنے ہوئے ہیں جبکہ کئی لوگوں کی طرف سے چیف جستس ثاقب نثار کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے معاملے میں غیر جانبداری اور شفافیت کی بات تو کی تاہم ان کے اقدامات مبینہ طور پر اس بارے میں دعووں کی نفی کرتے رہے۔
ٹوئٹر پر ان کے حالیہ بیانات پر تنقید کا ایک پورا سیلاب امڈ آیا ہے۔ معروف صحافی اور کالم نگار مبشر زیدی نے کسی کا نام لیے بغیر ٹوئٹر پر لکھا، ’’بدبو دار کچرے کا ٹوکرا، تاریخ کے کوڑے دان میں۔‘‘ معروف تجزیہ نگار بابر ستار نے لکھا، ’’چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کاغلط استعمال کر کے جس طرح سیاسی، معاشی اور قانونی بے یقینی پیدا کی، وہ کافی عرصے تک ہمیں اذیت دیتی رہے گی۔‘‘ اسی طرح معروف صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا، ’’پاکستان کی سیاست کا ایک باب چوہدری نثار سے شروع ہو کر ثاقب نثار پر بند ہوگیا ہے۔‘‘

Lahore Pakistan  Chief Justice of Pakistan CJP Justice Mian Saqib Nisar
چیف جسٹس ثاقب نثار گزشتہ برس اگست میں لاہور میں عام شہریوں کو عید ملتے ہوئےتصویر: Imago

اس کافی سخت تنقید کے باوجود ملک میں کئی حلقے چیف جسٹس ثاقب نثار کے مداح بھی ہیں۔ اسکولوں کی فیس میں ہوش ربا اضافہ ہو یا ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی حالت زار، ان سب معاملات کا چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر بہت سے پاکستانیوں کے دل جیت لیے تھے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی کارکردگی پر رد عمل ملا جلا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آبادی، آلودگی، اسکولوں کی فیس اور ہسپتالوں کی حالت زار پر ان کے اقدامات کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ کئی لوگوں کے خیال میں بیوروکریسی صرف عدالتوں ہی سے ڈرتی ہے اور یہ خوف عدالتوں کی طرف سے از خود نوٹس لیے جانے کے واقعات سے پیدا ہوا۔ تاہم ان کی طرف سے لوگوں کی بے عزتی کرنے اور انتظامی معاملات میں دخل دینے سمیت کئی اقدامات نے ان کے خلاف تنقید کا راستہ بھی ہموار کیا۔‘‘

پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہوں نے طاقت ور جرنیلوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار پر ان کے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے سیاست دانوں کے خلاف فیصلے دیے، جن سے جمہوریت کمزور ہوئی۔

معروف سیاست دان سینیٹر عثمان کاکڑ کے خیال میں ان کے دور میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ انصاف کے معیار دوہرے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ چیف جسٹس صاحب حزب اختلاف اور نواز شریف کے خلاف زیادہ سخت تھے لیکن چاہے بنی گالہ کا مسئلہ ہو یا پھر علیمہ خان کی املاک کا، اس میں حکومت اور حکومت سے وابستہ لوگوں کی طرف ان کا رویہ مبینہ طور پر نرم نظر آیا۔ سیاست دانوں کے خلاف فیصلوں کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کمزور ہوئیِ‘‘

سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ انتظامی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ کئی ناقدین کے خیال میں عثمان کاکڑ کی اس بات میں حقیقت کا عکس موجود ہے۔

مثال کے طور پر حالیہ ہفتوں میں کچھ اراکین پارلیمان کو بتایا گیا کہ صرف سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کل بروز بدھ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام دنیا کا بہترین عدالتی نظام ہے، تو اس پر کئی حلقوں کو حیرت بھی ہوئی اور انہوں نے اس پر سخت تنقید بھی کی۔

متعدد ناقدین نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ صرف سپریم کورٹ میں ہی چالیس ہزار کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد دوہزار تیرہ میں بیس ہزار چار سو اسی تھی ، جو پندرہ اگست دوہزار اٹھارہ تک تقریباﹰ دگنی ہو کر چالیس ہزار پانچ سو چالیس ہوگئی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنان بھی چیف جسٹس ثاقب نثار سے نالاں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے مبینہ طور پر طاقت ور قوتوں کے اشارے پر انسانی حقوق سے متعلق اہم مسائل نظر انداز کیے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ماما قدیر بلوچ نے دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں لاپتہ افراد کے حوالے سے ’کچھ بھی نہیں کیا گیا‘۔

انہوں نے کہا، ’’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے عدالت نے کئی بار مقدمات کی سماعت کی تھی اور یہاں تک کہا تھا کہ ایف سی اور ایجنسیاں اغواء کے ان واقعات میں ملوث ہیں۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی شکایات سننے کے بجائے یہ کہا کہ لاپتہ افراد افغانستان یا کہیں اور چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک بار بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے کسی مقدمے کی سماعت نہیں کی۔ انہوں نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔‘‘

قوم پرست رہنماؤں کے خیال میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے معاملے میں بیانات دے کر قوم کو ایک متفقہ مسئلے پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جب کہ چھوٹے صوبوں سے کئی ناقدین یہ الزامات بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نے ’اٹھارہویں ترمیم کو متنازعہ بنانے‘ کی کوشش بھی کی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم پر بھی اس وقت شدید تنقید کی گئی جب میڈیا نے یہ بتایا کہ ڈیم کے لیے تیرہ ارب روپے کے مفت اشتہار دیے گئے جب کہ چندہ صرف نو ارب روپے جمع ہوا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ازخود نوٹس لیے جانے کے واقعات پر بار کو تو اعتراضات تھے لیکن آج جمعرات سترہ جنوری کو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے شرائط و معیارات طے کیے جائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں