1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چوری کرنے والے ہی بھلا مجھے انصاف کب دیں گے؟‘

8 جولائی 2020

پاکستان کے ایک نامور فوٹوگرافر سید مہدی بخاری کا کہنا ہے کہ ایک خاتون پاکستانی سفارت کار نے ان کی تصاویر غیر قانونی طور پر اور ان کی اجازت کے بغیر اپنی کتاب میں شائع کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ez2Y
Buch über Beziehungen Jordanien - Pakistan
تصویر: Dar Ul Maktab Al-Wataniya Jordan/Foto: DW/S.M. Bukhari

پاکستان کے ایک معروف فوٹوگرافر اور ٹریول بلاگر سید مہدی بخاری اس صورتحال سے سخت نالاں ہیں کہ ان کا کام بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ان کی اجازت کے بغیر تجارتی یا پروموشن مقاصد کے لیے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اسی سبب اب تک مالی نقصانات بھی اٹھا چکے ہیں کیونکہ پاکستان کے کئی نامی گرامی پرائیویٹ ادارے ان کی تصاویر اور کانٹیٹ کو ان کی اجازت یا خریدے بغیر ہی چھاپ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں اور انہوں نے کبھی مالی فائدے یا ریوارڈ کا نہیں سوچا تھا لیکن جب ان کے کام کو مالی یا ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر انہیں لازمی افسوس ہوتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مہدی بخاری کا کہنا تھا کہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ صرف پرائیویٹ ادارے ہی حقوق دانش کی چوری کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ ان کا تخلیقی مواد اور تصاویر تو کئی حکومتی ادارے بھی انہیں ادائیگی کیے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر ہی متعدد مرتبہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کر چکے ہیں۔

Buch über Beziehungen Jordanien - Pakistan
کتاب میں سید مہدی بخاری کی ایسی تصاویر شامل ہیں جو وہ پہلے ہی ٹریول بلاگز اور سوشل میڈیا پر شائع کر چکے تھے۔تصویر: Dar Ul Maktab Al-Wataniya Jordan/Foto: DW/S.M. Bukhari

پاکستانی دفتر خارجہ کی ایک خاتون سفارت نے مبینہ طور پر سید مہدی بخاری کے ٹریول بلاگز اور سوشل میڈیا پر پہلے سے شائع شدہ تصاویر اور تحریری کام پر مبنی ایک کتاب بھی شائع کر دی۔ سید مہدی بخاری کے مطابق، ''جارڈن-پاکستان ریلشنز‘ کے نام سے کتاب 2018ء میں شائع کی گئی تھی جس کے مصنفین میں اس وقت اردن کے لیے پاکستانی سفارت کار محترمہ سعدیہ وقار النساء اور اردن کے سفارت کار جناب عمر محمد نزال العرموتی شامل تھے۔ اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ تمام کی تمام تصاویر میری ہیں بلکہ اس میں دی گئی زیادہ تر معلومات بھی میری ہی تحریروں سے لی گئی ہے۔‘‘

’انصاف دینے والے اپنی ہی ایک افسر کو بچانے کی‘

مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف محترمہ سعدیہ وقار النساء سے رابطہ کیا بلکہ اردن کے سابق سفارت کار عمر محمد نزال العرموتی سے بھی رابطہ کیا جو اس کے علاوہ بھی چار کتابوں کے مصنف ہیں: ''جناب عمر محمد نزال تو اس پر شدید شرمندہ تھے کہ اس کتاب میں چوری شدہ مواد چھپا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تمام مواد محترمہ سعدیہ وقار النساء نے فراہم کیا تھا اور ان کے علم میں کبھی نہیں لایا گیا کہ وہ مواد چوری شدہ تھا۔‘‘

مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے محترمہ سعدیہ وقار النساء سے بھی رابطہ کیا مگر پاکستانی بیوروکریسی کے عمومی رویے کے مطابق انہوں نے ان کی بات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا: ''بلکہ میری طرف سے اس معاملے پر اسٹینڈ لینے کے بعد انہوں نے اپنے مختلف کولیگز اور دیگر افراد کی طرف سے مجھ پر اس معاملے پر خاموش ہو جانے کے لیے زور ڈالا گیا۔‘‘

Buch über Beziehungen Jordanien - Pakistan
''جناب عمر محمد نزال تو اس پر شدید شرمندہ تھے کہ اس کتاب میں چوری شدہ مواد چھپا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تمام مواد محترمہ سعدیہ وقار النساء نے فراہم کیا تھا اور ان کے علم میں کبھی نہیں لایا گیا کہ وہ مواد چوری شدہ تھا۔‘‘تصویر: Dar Ul Maktab Al-Wataniya Jordan/Foto: DW/S.M. Bukhari

اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم کے خصوصی اسٹیزن پورٹل پر بھی شکایت کی: ''چار ہفتوں بعد میری شکایت یہ کہہ کر نمٹا دی گئی کہ مذکورہ خاتون افسر نے اس کتاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ان کا نام ان کے علم میں لائے بغیر کتاب کے مصنف کے طور پر چھاپ دیا گیا ہے جس کے لیے انہوں نے اردنی سفارت کار کو خط بھی لکھا ہے۔ جس کی مجھے کاپی بھی فارورڈ کی جا رہی ہے۔ تاہم مجھے کوئی کاپی بھی نہیں ملی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہی لگتا ہے کہ متعلقہ اتھارٹی نے اپنی افسر کو بچانے کے لیے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔

پاکستان میں کاپی رائٹس قوانین تو موجود مگر عمل...

گلوبل پبلشنگ انڈکس کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی صنعت کا سب سے بڑا المیہ کاپی رائٹس کی چوری یا پائریسی ہے اور پاکستانی بک انڈسٹری کا 50 سے 60 فیصد تک حصہ ہر سال کاپی رائٹس کی چوری کی نذر ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کتابوں کی اشاعت سے متعلق ایک بڑے آن لائن ادارے 'پبلشنگ پرسپیکٹیوز‘ کا بھی یہی کہنا ہے کہ کتابوں کی اشاعت کی پاکستانی صنعت کے لیے سب سے بڑے مسائل میں سے اہم ترین کاپی رائٹس کا سرقہ ہے۔

یہ سرقہ یا چوری تو کتابوں یا شائع شدہ مواد کی ہے اور جس کے کاپی رائٹس باقاعدہ سے محفوظ کرائے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد کی جو صورت حال ہے اس کا اندازہ لگانا ہی محال ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے کانٹینٹ جنریٹ کرنے والے افراد اکثر یہ شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ لوگ ان کی اجازت کے بغیر اور منصوب کیے بغیر وہ کانٹنٹ اپنے نام سے آگے شائع کر دیتے ہیں۔

Buch über Beziehungen Jordanien - Pakistan
’’مذکورہ خاتون افسر نے اس کتاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ان کا نام ان کے علم میں لائے بغیر کتاب کے مصنف کے طور پر چھاپ دیا گیا۔‘‘تصویر: Dar Ul Maktab Al-Wataniya Jordan/Foto: DW/S.M. Bukhari

پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل راشد محمود سندھو کے مطابق پاکستان میں کاپی رائٹس کے تمام قوانین موجود ہیں اور  کاپی رائٹس آرڈیننس 1962 میں ملکی اور بین الاقوامی حوالے سے تمام رولز بنے ہوئے ہیں: ''آن لائن مواد کی چوری کے حوالے سے سائبر کرائم کے قوانین موجود ہیں اور اگر کوئی شخص ایف آئی اے میں اس حوالے شکایت درج کراتا ہے تو اس کی درخواست پر غور ہو گا اور اسے انصاف بھی ملے گا۔‘‘

سید مہدی بخاری کے بقول اب ان کے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس حوالے سے عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں۔

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے بھی رابطہ کیا تاکہ ایک سفارت کار کی طرف سے پاکستانی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی اور سرقہ کے معاملے پر ان کا نکتہ نظر جانا جا سکے مگر دفتر خارجہ کی ترجمان محترمہ عائشہ فاروقی کو ان کے سرکاری ای میل ایڈریس پر 29 جون کو لکھی گئی ای میل کا ابھی تک کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا۔