چودھری محمد اسلم کی ہلاکت ملک کا ایک بڑا نقصان
10 جنوری 2014پاکستان کی معاشی حب کراچی میں سرگرم مذھبی انتہاہ پسندوں نے پولیس کو اب تک کا سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ایس ایس پی سی آئی ڈی چودھری محمد اسلم جمعرات کی شام حملے میں جاں بحق ہونے سے صرف دس گھنٹے قبل تک مذھبی انتہاہ پسندوں کے خلاف عملی جنگ میں مصروف تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کی آخری پریس کانفرنس میں تین دہشت گردوں کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا انکشاف کیا تھا۔ چوھدری اسلم کی موت یقیناٰ کراچی پولیس خصوصاٰ اُن افسران اور اہلکاروں کے لیے جو مذھبی انتہاہ پسندوں کے خلاف سرگرم ہیں بہت بڑا دھچکا ہے۔
چودھری اسلم کی پولیس میں حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ بم حملے میں موقع پر ہی جاں بحق ہونے کے باوجود حکام کو انکی موت کی تصدیق کرنے میں آدھے گھنٹے سےزائد کا وقت لگا۔ بہرحال کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری اسلم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چودھری اسلم بہادر افسر تھے اور انہوں نے بہادروں کی موت پائی۔ چودھری اسلم کی موت کے کراچی پولیس پر پڑنے والے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد حیات کا کہنا تھا کہ "ہم حالت جنگ میں اور جنگ میں نقصانات فطری بات ہے۔ لیکن چودھری اسلم کی قربانی رائیگا نہیں جائے گی " ۔
شاہد حیات کے ان الفاظ کو ثابت کیا چند روز قبل بم حملے میں بچ جانے والے انسپکٹر شفیق تنولی نے۔ آج ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے ماڑی پور میں پولیس موبائیل پر دستی بم حملہ کیا جسمیں میں دو اہلکار زخمی ہوئے۔ ایس ایچ او ماڑی پور انسپکٹر شفیق تنولی نے جوابی کاروائی کی اور موبائیل پر حملہ کرنے والے تین دہشت گردوں کو مار گرایا۔
چودھری اسلم نے کراچی میں ٹی ٹی پی کو اتنا نقصان پہنچایا تھا کہ انہیں پہلے بھی دو بار بم حملوں میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ستمبر دو ہزار گیارہ میں انکے گھر پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خودکش حملہ کیا گیا اور گذشتہ برس رمضان میں بھی لیاری ایکسپریس وے پر ہی موٹر سائیکل میں نصب بم کے ذریعے ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
چودھری اسلم صرف نے کراچی پولیس ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف وہ حیثیت اختیار کرلی تھی جو ان سے پہلے کسی پولیس افسر کو حاصل نہیں ہوئی اور مستقبل میں شاید ہی کوئی دوسرا پولیس افسر اس مقام پر پہنچ پائے۔
چودھری اسلم کی موت صرف پولیس ہی نہیں بلکہ بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کے لیے نقصان قرار دیا جاسکتا ہے۔ انکی موت پر وزیر اعظم نواز شریف اور تمام سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے علاوہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی چودھری اسلم کی موت کی مزمت کی۔ اور تو اور ماضی میں چودھری اسلم کے بدترین مخالفت کرنے والے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی چودھری اسلم کی موت کی پُرزور مذمت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ برس ایک سو ستر پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے والے مذھبی انتہا پسندوں نے چودھری اسلم کی موت کو اس حملے میں یقینی بنانے کے لیے وہ مہلک طریقہ کار اختیار کیا جو اس سے قبل دو ہزار چھ میں امریکی سفارتکار ڈیوڈ فوئے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ڈی آئی جی ظفر بخاری کے مطابق گذشتہ ہفتے چودھری اسلم نے انہیں بتایا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے انہیں ٹیلی فون کرکے کہا تھا کہ آپ ہمیں بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر آپ باز نہ آئے تو اپکا کچھ کرنا پڑے گا۔
چودھری اسلم نے اسّی کی دھائی کے وسط میں کراچی پولیس میں ملازمیت اختیار کی تھی اور نچلے درجے سے ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے تک پہنچے تھے۔ سب انسپکٹر بہادر علی، انسپکٹر توفیق زاہد، سب انسپکٹر حیدر علی، سب انسپکٹر حسن اور نثار، انسپکٹر ناصر الحسن اور ڈی ایس پی بہاو الدین بابر سمیت چودھری اسلم کے ساتھیوں کی اکثریت ماری جاچکی ہے۔ اور صرف ایس پی راو محمد انوار اور انسپکٹر سرود کمانڈو زندہ رہ گئے ہیں۔ مگر چودھری اسلم سمیت کئی ساتھیوں کے جنازوں کو کندھا دینے والے سرور کمانڈو بھی اپنے ساتھیوں کی طرح دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پرعزم ہیں۔ سرور کمانڈو کہتے ہیں ان کے تمام ساتھیوں نے ملک کی خاطر جان کی قربانی دی اور وہ بھی اس کے لیے تیار ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں مذھبی انتہاہ پسندی کے خلاف سرگرم پولیس افسران سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے ہی ڈی مورالائز تھے اور رہی سہی کسر ان افسران سے سکیورٹی واپس لے کر پوری کردی ہے۔ ڈی ایس پی بہاو الدین بابر حملے کے وقت بغیر سکیورٹی کے تھے، چودھری اسلم کی بم پروف گاڑی ان کے استعمال میں نہیں تھی، اس طرح کے حالات میں باقی ماندہ افسران کو فوری سکیورٹی فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ فورس کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے بھرپور قوت سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا جائے۔