1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاند بھی کسی کی ملکیت ہے؟

20 نومبر 2022

دنیا کی طاقتور اقوام کافی عرصے سے خلائی برتری کے لیے کوشاں ہیں اور برتری کی یہی دوڑ بہت سے اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ایسے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ چاند جیسے اجرام فلکی کی ملکیت کا دعوٰی کیا رنگ لا سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4Jbba
Meteor running in the starry sky, toward the planet Earth
تصویر: Alain de Maximy/NASA/Zoonar/picture alliance

یہ بھلے ایک سائنس فکشن کی طرح ہی لگتا ہو، لیکن ہم چاند اور مریخ جیسے فلکیاتی اجسام کو اپنی نوآبادیات  بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کے آرٹیمس پروگرام کا مقصد موجوہ دہائی کے آخر تک چاند پر ایک بیس کیمپ قائم کرنا اور آئندہ دہائی میں وہاں پر مزید تحقیقاتی مراکز کا قیام ہے۔

روس اور مغرب اب بھی خلا میں مل کر کیوں کام کر رہے ہیں؟

چین کی قومی خلائی ایڈمنسٹریشن اور روس کی وفاقی خلائی ایجنسی روسکوسموس نے آئندہ دہائی میں چاند پر اپنی الگ الگ تنصیبات کی تعمیر کا اعلان کر رکھا ہے۔

Amerika | Apollo 15 Mondlandung | Astronaut James Irwin
ماہری کے مطابق چاند پر جھنڈا لہرانے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی نے اس کی ملکیت حاصل کر لی ہےتصویر: The Print Collector/HIP/picture-alliance

 چاند کسی کی ملکیت نہیں

خلائی نوآبادیات کا امکان چند بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ان میں  سب سے بنیادی  سوال یہ ہےکہ آیا قومیں یا کمپنیاں حقیقت میں چاند یا دیگر فلکیاتی اجسام کی مالک ہو سکتی ہیں۔

یورپین اسپیس ایجنسی میں  انٹرنیشنل پبلک لا ء کے سربراہ الیگزینڈر سوسیک کے مطابق ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''ایک قوم چاند پر جھنڈا گاڑ سکتی ہے، لیکن اس کا کوئی قانونی معنی یا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بیرونی خلائی معاہدے میں شامل ہے، جہاں یہ لکھا ہے کہ کوئی بھی ملک چاند پر خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا یا اسے اپنا علاقہ نہیں بنا سکتا۔‘‘

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن امید کی کرن ہے، کرسٹوفیروٹی

اس ضمن میں مزید ایک اہم وضاحت کرتے ہوئے سوسیک کا کہنا تھا کہ  اس قانون کا دائرہ ایلون مسک کی اسپیس ایکس جیسی نجی کمپنیوں تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم یہاں بین الاقوامی قانون کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں اپنے شہریوں اور نجی کمپنیوں پر قانون لاگوکریں۔‘‘

کیا چاند کی جزوی ملکیت حاصل کی جا سکتی ہے؟

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن اس صورت میں کیا ہو گا جب لوگ چاند سے مواد نکالیں؟ کیا وہ اس مواد کے مالک ہیں اور اسے بیچ سکتے ہیں؟ سوسیک کے مطابق یہ کشیدگی کا ایک بڑا نقطہ ہے۔

خلا میں بھی روس اور امریکہ کی راہیں جدا

سوسیک  کے بقول، ''ملک ایکس  یا وائے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں چاند کو قومی علاقہ قرار دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن وہ چاند یا مریخ سے نکالے گئے مواد کے مالک ہونے اور انہیں زمین پر واپس فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

یہ تناؤ 1967 ءکے بیرونی خلائی معاہدے کی شق دو کی مختلف قانونی تشریحات کا مرہون منت ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے: ''خلا، چاند اور دیگر فلکیاتی اجسام سمیت، خودمختاری کے دعوے کے ذریعے، استعمال، قبضے  یا کسی اور طریقے سے  قومی اختصاص کے تابع نہیں ہیں۔‘‘

NASA - Back to the Moon, and beyond
امریکہ، چین، روس اور یورپی ممالک سمیت سبھی نے چاند پر اپنے بیس کیمپ اور تحقیقاتی مراکز قائم کرنے کے اعلانات کر رکھے ہیںتصویر: NASA

سوسیک کے مطابق اگرچہ یہ شق واضح طور پر چاند کو ایک فلکیاتی جسم کے طور پر رکھنے کا حوالہ دیتی ہے،تاہم مختلف وکلاء کی مختلف تشریحات ہیں کہ آیا یہ شق قوموں یا کمپنیوں کو چاند کے کچھ حصوں کو تجارتی استعمال کے لیے رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اگر واقعی چاند کے کچھ حصوں کا فائدہ اٹھانا ممکن ہے تو کیا منافع بانٹنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ پہلے آئیے، پہلے پائیے کا معاملہ ہے؟ ان مسائل سے متعلق کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

لیکن بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس لاء کے صدر کائی یوو شروگل کے مطابق بیرونی خلائی معاہدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ کوئی بھی چاند سے لیے گئے مواد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس بارے میں  ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس میں کوئی خامیاں نہیں ہیں۔ بیرونی خلائی معاہدے کی جان بوجھ کر غلط تشریحات کی گئی ہیں۔ وہ قومیں جو نجی عناصر کی ذمہ دار ہیں، کو صرف یہ کہنا ہے: نہیں، آپ ان وسائل کے مالک نہیں ہو سکتے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘

 خلا کی عدم ملکیت پراتفاق

 یورپی اقوام کی طرف سے افریقہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد 1884-1885ء کی برلن کانفرنس سے اب تک انسانیت نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔  ایک ایسے عالمی معاہدے کی موجودگی میں ، جس کے مطابق چاند پر علاقوں کا مالک ہونا ایک برا خیال ہے، چاند کی نوآبادیات کا مستقبل کم خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ سوسیک  کے مطابق، ''ہر کوئی بیرونی خلا کو تلاش کرنا چاہتا ہے، اس لیے بین الاقوامی تعاون کے عظیم تر فائدے کی بین الاقوامی آگاہی  ہے۔‘‘

بوئنگ کا خلائی جہاز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچ گیا

مبصرین اکثر خلائی تحقیق کو عالمی امن کے لیے امید کی کرن کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں معاہدوں کو پابندی کے ساتھ تعاون کا استحکام بخشا جاتا ہے اور زیادہ تر ممالک خلا میں اس ہم آہنگی کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ بیرونی خلائی معاہدہ سرد جنگ کے دوران بین الاقوامی کشیدگی کی انتہا پر کامیابی سے طے پایا تھا۔ اب یوکرین میں جنگ پر کشیدگی کے باوجود روسی خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مغرب کے خلابازوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔

China Trägerrakete Langer Marsch-5B Y3 mit Raumstation Wentian
حالیہ برسوں میں چین نے اپنے خلائی پروگرام کو بڑی حد تک وسعت دی ہےتصویر: Tu Haichao/Xinhua/IMAGO

خلا میں تعاون کب تک ؟

اگرچہ بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس لاء  کے صدر شروگل اس بات سے متفق ہیں کہ بڑی بین الاقوامی خلائی طاقتوں نے استعمار سے سیکھا ہے، تاہم وہ پھر بھی خلا میں بین الاقوامی تعاون کی طویل مدت کے بارے میں کم پر امید ہیں۔ اگرچہ معاہدوں نے ایک بنیادی بین الاقوامی اتفاق رائے قائم کرنے میں مدد کی ہے، لیکن خلائی تحقیق پر کچھ اختلاف ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اس سال کے شروع میں ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چین کسی دن چاند پر اتر سکتا ہے اور کسی مخصوص حصے کو اپنا علاقہ قرار دے سکتا ہے۔

چین کے پہلے خلائی اسٹیشن کی تعمیرکے لیے چینی خلا باز روانہ

چین نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے خلاء میں امن اور اسے غیر فوجی رکھنے کے اپنے عزم پر دوبارہ زور دیا۔ شروگل نے کہا کہ ''تمام خلائی طاقتیں اس وقت ختم ہو جائیں گی جب خلا اور فلکیاتی اجسام میں انارکی ہو گی۔(خلا میں انارکی کا خیال)بالکل وہی تھا جس کی وجہ سے بیرونی خلائی معاہدہ ہوا، جب خلائی طاقتوں کو یقین نہیں تھا کہ ان میں سے ہر ایک کیسے ترقی کرے گا۔ ہمیں اس صورت حال میں اب اس راستے کو تبدیل کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

ش ر ⁄ ع ت ( شوالر فریڈرک)

 

کیا وجہ ہے کہ اسپیس اسٹیشن زمین پر نہیں گرتے؟