چار ہفتوں میں سات ہزار سے پندرہ ہزار تک روسی فوجی ہلاک، نیٹو
24 مارچ 2022نیٹو ماہرین کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حکم پر ملکی مسلح افواج نے ہمسایہ ملک یوکرین میں فوجی مداخلت شروع کرتے ہوئے سوچا یہ تھا کہ ماسکو کو کییف کے خلاف بڑی تیز رفتاری سے حتمی جنگی فتح مل جائے گی۔ تاہم جو کچھ اس جنگ کے آغاز کے بعد ہوا، وہ ماسکو کی فوجی توقعات کے بالکل برعکس تھا اور اس کی وجہ یوکرینی افواج اور عوام کی طرف سے کی جانے والی بھرپور مزاحمت بنی۔
افغانستان اور یوکرین میں روسی فوجی ہلاکتوں کا موازنہ
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اندازوں کے مطابق روس کو یوکرین کی جنگ میں صرف چار ہفتوں کے دوران جو جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، وہ غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ نیٹو کے ایک اعلیٰ ملٹری عہدیدار کے مطابق ماسکو کو یوکرین میں 24 فروری سے اب تک سات ہزار سے لے کر 15 ہزار تک فوجی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے۔
یوکرینی صدر کی روس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کی اپیل
اس کے برعکس سابق سوویت یونین کے دور میں افغانستان میں جو فوجی مداخلت کی گئی تھی، اس میں 10 سال کے عرصے میں روس کو مجموعی طور پر اپنے تقریباﹰ 15 ہزار فوجیوں کی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
روسی فوجی ہلاکتوں کے تخمینے کے ذرائع
یوکرین کی جنگ میں ماسکو کو ہونے والے فوجی نقصانات سے متعلق نیٹو نے اپنے تخمینے کی بنیاد یوکرینی حکام کی طرف سے ملنے والی رپورٹوں اور مختلف ذرائع سے حاصل کردہ خفیہ معلومات کو بنایا۔ اس کے علاوہ روسی فوجی ہلاکتوں کے اس تخمینے میں ان اعداد و شمار کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو خود ماسکو حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے لیکن جن کے سو فیصد درست ہونے کے بارے میں یقین سے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
'روس صرف اسی وقت جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرے گا جب...'
روسی حکومت نے دو مارچ کو اس جنگ سے متعلق جو اعداد و شمار جاری کیے تھے، ان میں کہا گیا تھا کہ تب تک روس کے تقریباﹰ 500 فوجی ہلاک اور 1600 کے قریب زخمی ہو چکے تھے۔
نیٹو کے جس اعلیٰ عسکری اہلکار نے نیوز ایجنسی اے پی کو اب تک ہونے والی روسی فوجی ہلاکتوں کے تخمینے کی تفصیلات بتائیں، انہوں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ انہیں نیٹو کے ضوابط کے تحت میڈیا کو ایسی معلومات فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
یوکرین میں فوجی مداخلت خارج از امکان: جرمنی اور نیٹو کا موقف
یوکرین کو پہنچنے والا فوجی جانی نقصان
روس اور یوکرین کی موجودہ جنگ براعظم یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کا سب سے بڑا جنگی تنازعہ ہے۔ 1940ء کی دہائی کے بعد سے یورپ میں اتنے وسیع پیمانے پر اور اتنے مختصر وقت میں اتنی زیادہ تباہی اور ہلاکتیں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔
یوکرینی جنگ: روس کا سامنا کرتے بھارتی رویہ متزلزل، بائیڈن کی شکایت
اس جنگ میں خود یوکرین کو اب تک کتنا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، اس حوالے سے کییف میں ملکی مسلح افواج کی طرف سے زیادہ معلومات جاری نہیں کی گئیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے تاہم تقریباﹰ دو ہفتے قبل، جب اس جنگ کو شروع ہوئے صرف دو ہفتے ہی ہوئے تھے، کہا تھا کہ تب تک یوکرین کے تقریباﹰ 1300 فوجی مارے جا چکے تھے۔
روس یوکرین کے خلاف کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے، امریکہ
روسی فوجی حملے تیز تر، پیش قدمی تقریباﹰ رک چکی
یوکرین میں مغربی ممالک کی طرف سے مہیا کردہ ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے کییف حکومت کے فوجی دستے اب اس جنگ میں ایسی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں، جس کے تحت روسی دستوں کی یوکرینی ریاستی علاقے میں پیش قدمی اب کافی سست ہو چکی اور کئی علاقوں میں تو رک چکی ہے۔
کیا یوکرین کے دفاع کی جنگ میں غیر ملکیوں کی شمولیت جائز ہے؟
اس عسکری صورت حال کے اپنے حوالے سے مؤثر تدارک کے لیے روسی فوج اب کر یہ رہی ہے کہ وہ دارالحکومت کییف سمیت یوکرین کے مختلف شہروں پر میزائلوں، راکٹوں اور توپوں سے کیے جانے والے حملے تیز تر کر چکی ہے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ کہ روسی فوج کوئی پیش قدمی تو نہیں کر رہی مگر یوکرینی شہر اور قصبے ملبے کے ڈھیر بنتے جا رہے ہیں اور ان فضائی حملوں میں یوکرینی فوج اور عام شہریوں کا مسلسل جانی نقصان بھی ہو رہا ہے۔
مخصوص حالات میں یہ روسی جنگی حکمت عملی کا ویسا ہی نتیجہ ہے، جیسا ماضی میں روسی علیحدگی پسند جمہوریہ چیچنیا اور مشرق وسطیٰ کی برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ریاست شام میں دیکھنے میں آ چکا ہے۔
م م / ک م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)