چائلڈ پورن نیٹ ورک ’ایلیسیم‘ کے بانیوں کو لمبی سزائے قید
7 مارچ 2019’ڈارک نیٹ‘ پر جرمنی سے چلنے والے ’ایلیسیم‘ نامی اس پلیٹ فارم کو تقریباﹰ دو برس پہلے بند کر دیا گیا تھا۔ آج جمعرات سات مارچ کو اس نیٹ ورک کے چار بانی ملزمان کو قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔ ان ملزمان کا تعلق جرمن صوبوں باویریا، ہیسے اور باڈن وُرٹمبرگ سے ہے۔
جرمن شہر لمبورگ کی ایک عدالت کے فیصلے کے مطابق ملزمان کی طرف سے دنیا کا ایک بڑا چائلڈ پورنوگرافی نیٹ ورک بنایا اور چلایا جا رہا تھا۔ ایک تریسٹھ سالہ ملزم کو دو بچوں سے جنسی تعلق قائم کرنے کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا۔ ان ملزمان کو چار سے لے کر دس برس تک قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ استغاثہ نے ہر ایک ملزم کے لیے نو نو سال قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وکیل دفاع نے چند الزامات مسترد کیے جانے کی اپیل کر رکھی تھی۔
جرمنی کے اس کیس کو بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس نیٹ ورک کی وسعت تھی۔ جون دو ہزار سترہ میں جب اس ویب سائٹ کو بند کیا گیا، تو اس کے فعال صارفین کی تعداد ایک لاکھ گیارہ ہزار سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔ اس نیٹ ورک کا شمار دنیا کے بڑے چائلڈ پورن نیٹ ورکس میں ہوتا تھا۔ اس نیٹ ورک کا ہیڈکوارٹر بھی جرمنی میں ہی تھا اور دنیا بھر کے صارفین کو بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیوز فراہم کی جاتی تھیں۔ ان میں سے کئی ایک تو انتہائی سنگین نوعیت کی ویڈیوز تھیں۔
جرمن میڈیا کے مطابق اس نیٹ ورک کو چلانے والے بھی مقدمہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے تک ایک دوسرے کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔ ایسا ’ڈارک نیٹ‘ کی مخصوص حیثیت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ ’ڈارک نیٹ‘ کے لیے ’ٹَور‘ یا ’دروازہ‘ نامی براؤزر استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی صارف اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے کسی بھی دوسرے صارف کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ کر سکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر کوئی ایک ’ڈارک نیٹ‘ نہیں بلکہ کئی چھوٹے بڑے ’ڈارک نیٹ‘ کام کر رہے ہیں۔
’ڈارک نیٹ‘ پر کوئی بھی دو صارفین ’کریپٹو گرافک ٹولز‘ کا استعمال کرتے ہوئے آپس میں محفوظ رابطہ قائم کر لیتے ہیں اور اس طرح یہ دونوں کسی بھی تیسرے فرد کو پتہ چلے بغیر آپس میں ڈیٹا کا تبادلہ کرنے کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ چائلڈ پورنوگرافی میں زیادہ تر یہی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پرائیویٹ نیٹ ورک میں مزید صارفین کو شامل کرنے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے اور نئے شامل ہونے والے صارفین بھی روایتی انٹرنیٹ سے الگ ہی رہتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں جرمنی کے اٹھاون سالہ یوآخم پی کو اس نیٹ ورک کا بانی قرار دیا گیا۔ مجرم نے اس نیٹ ورک کی بنیاد سن دو ہزار سولہ میں ایک آسٹریلوی نیٹ ورک کے بند ہونے کے بعد رکھی تھی۔ اس مجرم نے اپنا خفیہ نام یونانی اساطیر پر مبنی ’خوش قسمتی کا جزیرہ‘ رکھا ہوا تھا۔
جرمن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں تیرہ ہزار پانچ سو بچوں اور کم عمر نوجوانوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق جرمنی میں اس طرح کے جرائم کا نشانہ بننے والی لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کے مطابق جرمنی میں اوسطاﹰ کسی بھی اسکول کی ہر کلاس کے دو بچوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ا ا / م م