1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت سے بدامنی کا ماحول

28 جون 2023

متاثرہ نوجوان کے اہل خانہ کے وکلاء نے پولیس کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ ڈرائیور نے انہیں گاڑی ٹکرانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہوں نے اس پر فائرنگ کی۔

https://p.dw.com/p/4T9BE
Frankreich Unruhen bei Paris in Nanterre
تصویر: ZAKARIA ABDELKAF/AFP

فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقے نانٹیرے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان رات بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔ گزشتہ روز اسی علاقے میں پولیس افسر نے ایک 17 سالہ ڈیلیوری ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فرانس میں بچوں پر حملہ، پانچ افراد زخمی

پولیس کی گولی سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات رکاوٹیں کھڑی کیں، جن کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیل داغے۔

عید پر کتنے بچوں نے اسکول سے چھٹی کی، فرانس میں گنتی شروع

نانٹرے میں پراسیکیوٹرز کے دفتر نے بتایا ہے کہ ڈرائیور پر فائرنگ کرنے والے پولیس افسر کو قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

فرانس: بارہ سالہ بچی کی لاش سوٹ کیس سے برآمد

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین کا کہنا ہے کہ پولیس پر نگرانی کرنے والے ادارے (آئی پی جی این) نے اس واقعے کی اندرونی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

پیرس شہر کی تاریخ کا ایک نسوانی پہلو بھی ہے

علاقے میں بدامنی اور مظاہروں کا سلسلہ منگل کی شام کو ہی نانٹیرے پولیس اسٹیشن کے باہر شروع ہو گئے تھے جو بعد میں پڑوسی شہروں تک پھیل گئے۔

اس دوران مانٹیس لا جولی میں ایک ٹاؤن ہال کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا، تاہم انہیں جلد ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکام نے بتایا ہے کہ اب تک 15 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

کشیدگی میں اضافہ اور مظاہرین کی گرفتاریاں

یہ مظاہرے منگل کے روز اس وقت شروع ہوئے جو پولیس فائرنگ کے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی۔

Frankreich Unruhen bei Paris in Nanterre
حکام نے بتایا ہے کہ ہنگامہ کرنے والے اب تک 15 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہےتصویر: ZAKARIA ABDELKAF/AFP

فرانسیسی خبر رساں اداروں نے اس ویڈیو کی تصدیق بھی کی ہے، جس میں دو پولیس افسران کو ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرا پولیس والا اپنے ہتھیار سے کھڑکی سے ڈرائیور کی جانب نشانہ لے رہا ہے اور جب ڈرائیو گاڑی روکنے کے بجائے، چلنے لگتا ہے، اسی وقت بہت ہی قریب سے پولیس اس پر فائرنگ کرتی ہے۔

ڈرائیو کو گولی لگتی ہے اور اس کی کار کریش کرنے سے پہلے کچھ دور تک چلتی بھی ہے۔

نوجوان ڈرائیور کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے پولیس کے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ چونکہ ڈرائیور نے ان پر گاڑی چڑھانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہیں جان کا خطرہ لاحق تھا ہے، اس لیے انہوں نے اس پر فائرنگ کی۔

مذکرہ کار میں دو دیگر مسافر بھی سوار تھے، جس میں سے ایک کو تھوڑی دیر کے لیے حراست میں لیا گیا اور پھر بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ پولیس فرار ہونے والے دوسرے مسافر کو تلاش کر رہی ہے۔

واقعے پر سیاسی رد عمل

بائیں بازو کے سیاست دان ژاں لوک میلنشون نے کہا کہ پولیس ریاست کی اتھارٹی کو بدنام کر رہی ہے اور اس محکمے میں زمینی سطح پر اصلاح کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں کہا، ''فرانس میں سزائے موت کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔ کسی پولیس افسر کو اپنے دفاع کے علاوہ قتل کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔''

دریں اثنا قدامت پسند جماعت ریپبلکنز کے صدر ایرک سیوٹی نے پولیس کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔

سیوٹی نے کہا کہ پولیس ''ہماری اجتماعی حفاظت کے محافظ'' ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''اس طرح کی افراتفری کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔''

واضح رہے کہ امریکہ کے مقابلے فرانس میں پولیس کی جانب سے اس طرح کے مہلک اسلحوں کے استعمال کا چلن بہت کم ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)

فرانس: پينشن اصلاحات کے خلاف لاکھوں شہریوں کا احتجاج