پیدائش، شادی اور موت، کوکس بازار میں زندگی رواں
21 اگست 2018میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے سن 1970 کے دہائی میں بنگلہ دیش مہاجرت اختیار کی تھی۔ وجہ وہی تھی جو حالیہ ہجرت کرنے والے بتاتے ہیں۔ یعنی بدھ انتہا پسندوں اور مبینہ ریاستی ظلم و ستم اور استحصال سے فرار۔
ستر کی دہائی میں بنگلہ دیش آنے والے رونگیا مہاجرین کی زندگی اب بھی ایک چھوٹے سے علاقے میں ہی گزر رہی ہے۔ یہ لوگ نہ تو قانونی طور پر کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں۔
روہنگیا بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی نہیں اور یہ مہاجر کمیونٹی بنیادی صحت اور حفظان صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ لیکن کم از کم یہاں ان لوگوں کو یہ خطرہ نہیں کہ کوئی انہیں جان سے مار دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہاجر واپس روہنگیا جانے کے بجائے بنگلہ دیش میں ابتر مہاجر کیمپوں میں سکونت پذیر ہیں۔
بیس سالہ روہنگیا مہاجر خاتون ستارہ نے اے ایف پی سے گفتگو میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے کہا، ’’میری خواہش ہے کہ ایک دن میری بیٹی میانمار دیکھ سکے۔‘‘ ستارہ گزشتہ برس اپنے کبنے کے ساتھ روہنگیا سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے کوکس بازار پہنچی تھی۔
کچھ دن قبل ہی ستارہ کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ستارہ وطن واپس جانے کی شدید خواہش رکھتی ہے لیکن وہ خوفزدہ بھی ہے، ’’میں اس وقت تک میانمار واپس نہیں جاؤں گی جب تک سبھی روہنگیا واپس جانے کو تیار نہیں ہو جاتے۔‘‘
ستارہ نے دوران حمل کوکس بازار میں فعال کسی غیر سرکاری طبی ادارے سے رابطہ نہیں کیا۔ زیادہ تر روہنگیا خواتین کی طرح ستارہ نے بھی زچگی کے لیے ایک دائی کا انتخاب کیا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں آئندہ کچھ مہینوں کے دوران پانچ ہزار بچے پیدا ہوں گے، یعنی صرف ایک دن میں اوسطا تین سو بچوں کی پیدائش۔
ساٹھ سالہ دائی ماجونا بیگم کا کہنا ہے، ’’کبھی کبھار میرے پاس دستانے ہوتے ہیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہوں تو میں ننگے ہاتھوں سے ہی زچگی کا عمل سرانجام دے دیتی ہوں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ درد کشا ادویات یا اینٹی بائیوٹکس کا موجود ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر زچگی میں کوئی پیچیدگی ہو تو وہ اپنی خدمات نہیں دیتی۔ لیکن اس علاقے میں موجود دیگر کئی دائیاں اس بارے میں پریشان نہیں ہوتیں۔
کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں زچگی کے دوران ہونے والی پیچدگیوں سے خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بنیادی ادویات کی عدم دستیابی اور حفظان صحت کی عدم موجودگی کے نتیجے میں انفیکشن پھیلنے کے علاوہ ماؤں اور بچوں کی صحت سے متعلق کئی دیگر مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود روہنگیا مرد مانع حمل کے طریقوں کو اختیار نہیں کر رہے۔
فیملی پلاننگ کی ماہر شپتا اختر کے مطابق، ’’مرد مانع حمل کے طریقے اس لیے استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے غلط سمجھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اب خواتین اس حوالے سے زیادہ احتیاط برت رہی ہیں اور وہ خود مانع حمل کے مختلف طریقے استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران اب ماہانہ یہ طریقے اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد صرف پانچ سے بڑھ کر ڈھائی سو تک پہنچ چکی ہے۔
ع ب / ش ح / اے ایف پی