1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ڈی ایم کا خالی خزانہ اور 9 ارب کے اشتہارات کا معجزہ

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
26 ستمبر 2023

پاکستان میں آج تک کسی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ خزانہ بھرا ہوا ہے۔ خالی خزانے میں چھپا نامعلوم خزانہ اربوں روپے کی صورت پہلے میڈیا مالکان کو نذرانے کی صورت دیا جاتا تھا۔ اب ڈیجیٹل میڈیا اور یوٹیوبرز کو پیش کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Wnwr
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

میں میڑک میں تھی جب اچانک سکول سے واپسی پر ہماری گلی میں گاڑیوں اور مشینری کا رش لگا ہوا تھا۔ حیرت کے ساتھ ساتھ تجسس بہت زیادہ تھا، جلدی جلدی گھر کے دروازے تک آئی تو ایک صاحب کلف زدہ سوٹ پہنے، کالی عینک لگائے، مسلسل ٹشو پیپر سے اپنے چہرے پر آنے والے پسینے کو صاف کر رہے تھے۔ مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کے دائیں بائیں دو لوگ منکر نکیر بنے ان کے سر پر چھتری تھامے اور ہاتھ والا پنکھا لیے کھڑے تھے۔ میرے لیے یہ منظر اس منظر سے زیادہ دلچسپ تھا، جس میں مداری بندر کے سامنے ڈگڈگی بجا کر کرتب کرواتا ہے۔

صاحب فرما رہے تھے کہ علاقے کی خدمت میری ذمہ داری ہے۔ اب سب سڑکیں بنیں گی۔ گٹر میں گر کر حادثات نہیں ہوں گے، کچرا جگہ جگہ نہیں بکھرا رہے گا وغیرہ وغیرہ۔ خلاصہ یہ تھا کہ بس "مجھے ووٹ دیجیے گا"۔ کسی نے اچانک کہا سر آپ جیتنے کے بعد ہمارے پاس مہینے میں کتنی بار آئیں گے؟ سوال پر مٹی ڈالنے کے لیے فورا صاحب نے اعلان کیا کہ الیکشن کے روز آپ سب میری فراہم کردہ گاڑیوں میں اپنے سینٹرز ووٹ ڈالنے جائیں گے، ہماری جانب سے کھانے کا بھی پرتکلف اہتمام ہو گا اور فی گھر پانچ پانچ ہزار روپے بھی دیے جائیں گے۔ یہ سب اس لیے یاد رہ گیا کہ ان الیکشنز کی وجہ سے کچھ ٹوٹی سڑکوں میں پیچ لگے تھے، جہاں سے بارش یا گٹر لیک ہونے کی وجہ سے سکول جاتے ہوئے بڑی پریشانی ہوتی تھی۔ 

عمر گزری تو خود کو کامیابی سے بے وقوف بنانے والے ان نمائندگان سے کچھ نفرت سی محسوس ہونے لگی۔ اس احساس میں خاطر خواہ حصہ ڈیجیٹلائزیشن اور میڈیا نے بھی ڈالا۔ اور یوں برسات کے پتنگوں کی طرح ہر پانچ سال بعد گلی محلوں میں نکلنے والے ان سیاسی پتنگوں کا کھیل بھی کافی حد تک ختم ہوا۔ اب سوال یہ اٹھا کہ اس طرز کی سیاسی کیمپین کی ضرورت آخر کیوں ختم ہوئی؟

پاکستان میں میڈیا چینیلز کی اجارہ داری نے میڈیا میں استعمال ہونے والی میجیک بلٹ تھیوری کو سیاسی جماعتوں کے زنگ زدہ بیانیے کے ساتھ کافی تیزی سے پھیلانا شروع کیا ہی تھا کہ اچانک مارکیٹ میں ایک نئی تھیوری ففتھ جینریشن وار  کی صورت وائرل ہوئی۔ وہ شاعر نے کہا تھا کہ "جیسے بیمار کو بے وجہ قرار جائے"۔ تو سمجھیے ففتھ جینریشن وار کی آڑ میں عوام کے ہاتھوں میں چلتی سمارٹ ڈیوائسز کو ان کی ذہن سازی اور سیاسی جماعتوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے تیزی سے پھیلایا گیا مگر پھیلانے والوں کی پلانگ کمزور تھی کہ استاد کو اپنے چیلے کو تمام سیکریٹس نہیں دینے ہوتے۔ 

پی ٹی آئی نے ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کو خوب استعمال کیا مگر سیاسی کیمپین اور اپنی تشہیر کے لیے قومی خزانے کا منہ اپنے مخصوص یوٹیوبرز کے لیے کھول دیا۔ خیبر پختونخواں میں بھی ڈیجیٹل سیل کے لیے نوجوانوں کو اپنی سیاسی کمیپین کے لیے قومی خزانے سے ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی۔

پی ڈی یم نے پی ٹی آئی سے حکومت لینے کے بعد صرف ایک رونا تسلسل سے رویا کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ آئیے اس خالی خزانے سے میڈیا کو دیے گئے اشتہارات اور چینلز کو دیے گئے انعامات کی تفصیل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں میڈیا کو 9 ارب 60 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے، جس میں سے 3 ارب 50 کروڑ کے اشتہارات پرنٹ میڈیا جبکہ 4 ارب 79 کروڑ روپے کے اشتہارات الیکٹرانک میڈیا کو دیے گئے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں وہی اخبارات اور وہی میڈیا ہاوسز سر فہرست رہے، جو اس حکومت کا من چاہا بیانیہ چلاتے رہے۔ 

ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت ہو یا ن لیگ، ان کے بیانیے کو عوام تک پہنچانے کا سہرا اب یوٹیوبرز کو جاتا ہے اس لیے پی ڈی ایم حکومت نے 2 ارب  23 کروڑ روپے ڈیجیٹل میڈیا کو دیے۔ اس طرح سیاسی کیمپین کی وہ تھوڑی بہت رقم جو پانچ سال بعد غریب عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے ان پر لگائی جاتی تھی اب اس کا رخ بھی سیاسی جماعتوں کے چاہنے والے یوٹیوبرز کی جانب مڑ گیا۔

پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک کبھی کسی حکومت نے یہ بات نہیں کہی کہ الحمدللہ خزانہ بھرا ہوا ہے۔ خصوصا پچھلے بیس سالوں میں مگر خالی خزانے میں چھپا نامعلوم خزانہ اربوں روپے کی صورت پہلے میڈیا مالکان کے قدموں میں نذرانے کی صورت پیش ہوتا تھا اور اب ڈیجیٹل میڈیا اور یوٹیوبرز کی نذر میں خصوصا پیش کیا جاتا ہے۔ افسوس اب بھی صرف اس بات کا ہے کہ عوام نے شعور کی بس اتنی منازل ہی طے کیں ہیں کہ اب وہ سڑکیں بنوانے والوں کے ہاتھوں نہیں  بلکہ موبائل فون پر شعور بانٹنے والوں کے ہاتھوں بخوشی استعمال ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔