1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا احتجاج، ملک میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

عبدالستار، اسلام آباد
5 نومبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور آئی ایس آئی کے شعبہ کاؤنٹر انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کی برطرفی کے لیے آج راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا۔

https://p.dw.com/p/4J6sS
Pakistan | Protestmarsch Unterstützer von Imran Khan
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کل اپنے خطاب میں دو سازشوں کا تذکرہ کیا تھا، جن میں ایک سازش میں انہوں نے کہا تھا کہ چار افراد ملوث ہیں جبکہ وزیرآباد کے حملے کے حوالے سے انہوں نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر داخلہ اور آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام لیا تھا۔ عمران خان نے کارکنان سے کہا تھا کہ وہ ان تینوں اشخاص کی برطرفی تک احتجاج کریں۔

احتجاج اور مظاہرے

اسلام آباد میں سخت انتظامات ہونے کے باعث دارالحکومت میں کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا۔ البتہ راولپنڈی پولیس کے مطابق مظاہرین نے مری روڈ، گوجرخان خان، موٹر وے، چک بیلی راوات اور راولپنڈی ڈویژن کے دوسرے کئی علاقوں میں احتجاج کیا۔ زیادہ تر مظاہرین ٹولیوں کی شکل میں سڑکوں پر نمودار ہوئے اور انہوں نے وہاں پر نعرے بازی کی۔ پاکستانی میڈیا کے کچھ اداروں نے دعوی کیا کہ اسلام آباد میں فیض آباد کے قریب مظاہرین جمع ہوئے اور ان پر پولیس نے آنسو گیس پھینکی۔ لیکن اسلام آباد اور پنڈی پولیس نے ڈی ڈبلیو اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ آنسو گیس کا کوئی استعمال نہیں ہوا۔

نامعلوم نمبر سے ’میری اور اہلیہ کی نجی ویڈیو‘ بھیجی گئی، سینیٹر اعظم سواتی

پاکستانی سیاست، اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے

عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان میں احتجاجی مظاہرے

عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

راولپنڈی کے علاوہ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی ان تین افراد کی برطرفی کے لیے مظاہرے ہوئے۔ لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ چوک، بابو صابو انٹر چینج روڈ، شاہدرہ چوک، ہربنس پورہ، رنگ روڈ، بھٹہ چوک، فیروزپور روڈ اور لبرٹی چوک پر مظاہرے ہوئے۔

عمران خان پر فائرنگ کے فوری بعد کے مناظر

’احتجاج جاری رہے گا‘

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے تین افراد کے نام لیے ہیں اور جب تک ان تینوں افراد کو ان کے عہدے سے ہٹایا نہیں جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔

پارٹی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم کسی بھی صورت میں احتجاج کو ختم نہیں کریں گے اور لانگ مارچ کو بھی منسوخ نہیں کیا جائے گا۔ جیسے ہی خان صاحب کی طبیعت بہتر ہو گی، وہ دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے اور ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملک میں انتخابات کا اعلان نہیں کرایا جاتا اور ان تین افراد کو ہٹایا نہیں جاتا۔‘‘

سیاست دانوں کے خدشات

سیاسی جماعتیں اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ حالات تصادم کی طرف جا رہے ہیں اور اگر تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی تو ملک میں جمہوریت کا مستقبل بھی وقتی طور پر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی کشور زہرا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''جس طرح عمران خان نے سخت بیانات دیے اور اداروں کی طرف سے ان پر سخت ردعمل آیا اور پھر عمران خان کی احتجاج کی کال آئی، اس سے یہ لگ رہا ہے کہ صورتحال تصادم کی طرف جا رہی ہے۔ گو کہ اداروں کی یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جمہوریت لولی لنگڑی ہی سہی چلتی رہے لیکن اگر تصادم کی صورتحال ہوئی تو وقتی طور پر جمہوریت کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان لشکری رئیسانی بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حالات یہ ہی بتا رہے ہیں کہ ملک کشیدگی کی طرف جا رہا ہے۔ میرے خیال میں عمران خان کو اس احتجاج کے بجائے حکومت کو سیاسی ایجنڈہ دینا چاہیے، جس میں انسانی حقوق، چھوٹے صوبوں کے مسائل، پارلیمانی بالادستی اور غیر جمہوری قوتوں کو کنٹرول میں رکھنے کا فارمولا ہو۔‘‘

عمران خان کے لانگ مارچ کا انجام کیسا ہو سکتا ہے؟

پاکستان، خوف کا ماحول اور ٹکڑوں میں بٹی صحافت

عمران خان کے کنٹینر تلے آ کر خاتون صحافی ہلاک ہو گئیں

سخت بیانات

واضح رہے کہ آرمی کے میڈیا ونگ کی طرف سے عمران خان کے الزامات کے بات سخت ردعمل آیا تھا، جس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا تھا کہ فوج کے خلاف اس طرح کے الزامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ جو لوگ آرمی کو بدنام کرنے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

آئی ایس پی آر کے بیان پر آج تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھرپور جواب دیا اور انہوں نے سوال کیا کہ اگر کسی ادارے میں کالی بھیڑیں نہیں ہو سکتی تو پھر کچھ آرمی افسران کا کورٹ مارشل کیوں کیا گیا اور اگر غلط کام پر آرمی افسران کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے تو پھر ان پر تنقید کیوں نہیں کی جاسکتی۔

وزیر اعظم کی پریس کانفرنس

وزیراعظم شہباز شریف نے آج ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لوگ پاکستان آرمی کے خلاف غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے عمران خان کو یاد دلایا کہ وہ ایک ایسے ادارے کے خلاف بات کر رہے ہیں جس کے جوان اور افسران وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں اپنی جان بھی قربان کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاک فوج کے خلاف اس طرح نہیں بول سکتا جس طرح عمران خان نے بولا۔

عمران خان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ بند کمرے میں چار بندوں نے سازش کی اور پھر بعد میں تین بندوں کی بات کی گئی۔ شہباز شریف نے حکومت کی تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تبدیلی آئینی طریقے سے ہوئی۔

پیمرا کی طرف سے پابندی

مزید براں پیمرا نے عمران خان کی تقاریر اور پریس کانفرنس کی نشر اور نشر مکرر پر پابندی لگا دی ہے۔ پیمرا کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ عمران خان نے لانگ مارچ میں تقاریر کیں اور چار نومبر کو پریس کانفرنس کی۔ عمران خان نے قتل کی سازش کے بے بنیاد الزامات لگا کر ریاستی اداروں کی ساکھ پر حملہ کیا۔ ایسا مواد نشر کرنے سے امن و عامہ کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔