1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی: جیسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا؟

17 جولائی 2024

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 'پاکستان تحریک انصاف' پارٹی اب بھی ملک میں کافی مقبول ہے۔ اس پر مخلوط حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کا ارادہ سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4iOZA
عمران خان کے پوسٹرز
عمران خان پہلی بار سن 2018 میں وزیر اعظم بنے تھے اور سن 2022 میں پاکستان کے طاقتور جرنیلوں سے مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں معزول کر دیا گیا تھاتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان دو سال قبل عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد معزول ہونے کے بعد کرپشن سے لے کر غداری تک کے کئی طرح کے مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان میں ایک بہت ہی مقبول سیاست دان ہیں۔

فروری کے عام انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں، جنہیں آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، نے مخالفین کی طرف سے بڑے پیمانے کی پابندیوں اور مبینہ ووٹوں کی دھاندلی کے باوجود سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔

پاکستان: پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی کے خلاف امریکی تنبیہ

حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے اہم فیصلے میں پی ٹی آئی کو قانونی طور پر ایک جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا اور اسی بنیاد پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں اسے زیادہ نشستیں دینے کی اجازت دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد اب وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی والی مخلوط حکومت نے کہا کہ وہ اس پارٹی پر مکمل پابندی عائد کرنے کی کوشش کرے گی۔

پاکستانی حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا ارادہ، عطا تارڑ

پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے قابل اعتماد شواہد موجود ہیں۔'' انہوں نے خان پر لگائے گئے کئی الزامات کا حوالہ دیا، جن میں ریاستی راز افشا کرنا، غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنا اور ان کی برطرفی کے بعد فسادات بھڑکانا وغیرہ شامل ہے۔

عمران خان کے خلاف شکنجہ کسنے کی کوشش

شہباز شریف کی قیادت والی پاکستان کی مخلوط حکومت کو اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ اسے ملک کی فوج کی حمایت حاصل ہے اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں فوجی مداخلت کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔

عدت کے دوران نکاح کیس، عمران خان اور بشری بی بی کی سزا معطل

عمران خان سن 2018 میں وزیر اعظم بنے اور 2022 میں پاکستان کے طاقتور جرنیلوں سے مفاہمت نہ ہونے پر انہیں معزول کر دیا گیا۔ ان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملک میں کئی ہفتوں تک احتجاج ہوا۔ خان کے کچھ حامیوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور یہاں تک کہ فوجی عمارتوں پر دھاوا تک بولا گیا۔

پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار، حکومت کی دو تہائی اکثریت کا خاتمہ

اکہتر سالہ عمران اگست 2023 سے جیل میں قید ہیں اور ان پر الیکشن میں کھڑے ہونے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کا مظاہرہ
سیاسی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے سے سیاسی تشدد مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

کیا پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی سیاسی انتشار کا باعث بنے گی؟

سیاسی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے سے سیاسی تشدد مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

عمران خان کو قید میں رکھنا بین الاقوامی قانون کے منافی، اقوام متحدہ

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پارٹی پر پابندی لگانا ''ایک تباہی'' ہو گی جو ''حکومت کے اپنے گرنے کا باعث بھی ہو سکتی'' ہے۔

عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں سزائیں کالعدم قرار

انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں ایسے بہت کم واقعات ہوئے ہیں جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی گئی ہو۔ یہ فیصلہ غیر یقینی اور افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔''

پاکستانی الیکشن ’سب سے بڑا ڈاکہ‘ تھا، عمران خان

پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار حماد اظہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔

انہوں نے کہا، ''حکومت عوام کی خواہش کو دبا رہی ہے، جو اس دور میں کبھی کام نہیں کرے گی۔ یہ ایک پرانا طریقہ ہے۔ اس سے مزید عدم استحکام پیدا ہو گا اور اب پاکستان کے لوگ پہلے سے کہیں زیادہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان کی مرضی کو فعال طور پر دبایا جا رہا ہے۔''

پی ٹی آئی کی مقبولیت برقرار رہے گی

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی فیلو مدیحہ افضل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشش بہت سے پاکستانی ووٹروں کی نظروں میں مخلوط حکومت کے جواز کو مزید کمزور کرے گی اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ کرے گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیشی

مدیحہ نے کہا، ''اس کے کافی نقصان دہ ہونے کا امکان'' ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح نہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا اقدام کامیاب ہو گا یا نہیں۔

انہوں نے کہا، ''یہ عدالتوں میں جائے گا اور عدلیہ اور (فوجی) اسٹیبلشمنٹ کے تصادم کو مزید تیز کر دے گا، جو پہلے سے ہی جاری ہے۔''

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں 20 سے زائد اضافی مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہے، جس سے شہباز شریف کی کمزور مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

مدیحہ افضل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشش انتہائی ''مایوس کن، جمہوریت مخالف اور تباہ کن ہے۔''

انہوں نے کہا، ''یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایسا کرنے کی کوشش ہے، جس میں پی ٹی آئی کو پارٹی کی حیثیت بحال کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے سے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واحد سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔''

وہ کہتی ہیں، ''میرے خیال میں تمام فریقین کو انتقامی کارروائیوں اور ظلم و ستم کی سیاست کو ختم کرنے کے ساتھ ہی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو یہ بات ہونی چاہیے کہ انتخابات، پارلیمنٹ اور ووٹر مینڈیٹ کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم فی الحال یہ ایک آمرانہ انداز ہے، جو جمہوریت کے منافی ہے۔''

مفاہمت کا امکان بھی کم

سیاسی تجزیہ کار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کا مقصد عمران خان کو طویل مدت کے لیے جیل میں رکھنا اور یہاں تک وہ ''ملک میں ہنگامی صورتحال بھی نافذ کرنا چاہتے'' ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی منظر نامے کو درست کرنے کے لیے مفاہمت کی ضرورت ہے لیکن اس صورت حال میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے اور پی ٹی آئی مفاہمت کے لیے حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کارکن اظہر کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے تحت سیاسی مفاہمت ممکن نہیں ہے، جس کی قانونی حیثیت ان کے خیال میں ''مصنوعی اور جعلی مینڈیٹ پر مبنی ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے جو ووٹ ڈالا، اس پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔''

انہوں نے مزید کہا، ''جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے، ہم سب مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے''۔

اس دوران یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے اور خود حکمراں جماعت مسلم لیگ نون میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے بھی اس حوالے سے یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ پابندی پر مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں سے صلاح و مشورہ کیا جائے گا اور تبھی کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔

واضح رہے کہ حکومت کو باہر سے حمایت دینے والی پیپلز پارٹی نے حکومت کے اس اعلان پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور اسے جمہوریت مخالف قرار دیا ہے۔

ص ز/ ج ا (ہارون جنجوعہ)    

کیا پاکستانی انتخابات کے نتائج پہلے سے طے ہیں؟