1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پہلے سے لاحق امراض کورونا کے مریضوں کے لیے بہت خطرناک کیوں؟

26 مارچ 2020

کسی نئے مرض کے حملے کی صورت میں پہلے سے لاحق امراض کسی انسان کے لیے بہت خطرناک کیسے اور کیوں ہوتے ہیں، خاص طور پر کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے؟ ایسے واقعات میں مریض کی جان کو درپیش خطرات کئی گنا ہو جانے کی وجہ کیا ہے؟

https://p.dw.com/p/3a3oo
Klinik Intensivstation mit künstlicher Beatmung
تصویر: Imago Images/Science Photo Library

یہ بات ہم میں سے اکثر لوگوں کو بار بار سننے کو ملتی ہے کہ کوئی بھی بیماری زیادہ تر بزرگ افراد اور پہلے سے مختلف امراض کے شکار انسانوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے انسانی جسم کے مدافعتی نظام اور اس کی کارکردگی کے طریقہ کار کو سمجھنا لازمی ہے۔

انسانی جسم کا مدافعتی نظام ایک عجوبہ

انسانی جسم کا مدافعتی نظام ہمیں صحت مند رکھنے کی کوشش میں چوبیس گھنٹے ایسا اور اتنا کام کرتا ہے کہ اسے ایک معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اس نظام کا کام جسم کی اس میں داخل ہونے والے ضرر رساں جرثوموں یعنی مائیکروبز سے حفاظت ہے، مثال کے طور پر مختلف طرح کے وائرس اور بیکٹیریا سے۔

انسانوں میں کمزور جسمانی مدافعتی نظام کئی طرح کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر کسی انسان کو پہلے ہی سے کسی بیماری یا بیماریوں کا سامنا ہو، تو وہ خود کو ان امراض سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے جو عفونتی بیماریاں ہوتی ہے اور کسی ایک انسان سے دوسرے کو آسانی سے لگ سکتی ہیں۔

پھیپھڑوں کے مستقل امراض

دمے کے شکار انسانوں کے پھیپھڑوں کو مستقل طور پر نقصان پہنچتا ہے۔ سانس کی نالی سکڑ کر تنگ ہو جاتی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر اس وقت محسوس ہوتا ہے جب انسان پھیپھڑوں سے سانس خارج کرتا ہے۔ اس لیے ایسے مریضوں کو صحت مند انسانوں کے مقابلے میں سانس لینے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور تھوڑا سا بھی کام کرنے پر ان کی سانس اکھڑ سکتی ہے، جو انتہائی حالت میں مریض کی جان کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔

جرمنی کی تراسی ملین کے قریب آبادی میں دمے کے مریضوں کی تعداد تقریباﹰ آٹھ ملین بنتی ہے۔ ان میں سے اکثریت کو دوطرح کے دمے کا سامنا رہتا ہے۔ ایک وہ جس کی وجہ الرجی بنتی ہے اور دوسرا وہ جس کی وجہ الرجی نہیں بنتی۔ دمے کی وجہ وہ عوامل بھی بنتے ہیں، جن کا نتیجہ الرجی ہوتی ہے یا پھر کسی وائرس کا نظام تنفس پر حملہ آور ہو جانا۔ تب جسم کو صرف دمے کے خلاف ہی جنگ نہیں کرنا پڑتی بلکہ پہلے سے موجود دیگر بیماریوں کے خلاف بھی۔ یوں کسی بھی بیمار انسانی جسم پر دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ پھر اس کا طبی مدافعتی نظام ناکام ہو کر کام کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حالت کسی بھی مریض کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔

کورونا وائرس: بچنے کے امکانات کتنے

ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کی عادت کسی بھی انسان کے پھیپھڑوں کی کارکردگی میں رکاوٹ بننے والے امراض کی اہم ترین وجہ ثابت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایسے انسانوں کا جسمانی مدافعتی نظام تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں کم از کم بھی دو گنا دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ یوں انہیں کسی بھی انفیکشن کا مقابلہ کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ اگر پھیپھڑے پہلے سے صحت مند نہ ہوں، تو کسی بھی حملہ آور وائرس کا انسانی صحت اور زندگی کے خلاف کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔

ذیابیطس

ایسے انسان جنہیں ذیابیطس یا عرف عام میں شوگر کی بیماری کا سامنا ہو، ان کا مدافعتی نظام بھی صحت مند انسانوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتا ہے۔ یہ بات ذیابیطس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹودونوں طرح کی بیماریوں کے مریضوں پر صادق آتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں اینٹی باڈیز جسم میں انسولین تیار کرنے والے خلیات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بیماری میں انسولین کی ناکافی مقدار کی وجہ سے مریض کے جسم میں شوگر لیول مستقل طور پر زیادہ رہتا ہے۔ یہ عمل انسانی جسم کی مدافعتی قوت کو مستقل بنیادوں پر کم کر دیتا ہے۔

ایسے حالات میں شوگر کے کسی مریض کو اگر کوئی عفونتی بیماری لگ جائے اور اگر ساتھ بخار بھی ہو جائے، تو نتیجہ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کا اطلاق ان مریضوں پر بھی ہوتا ہے، جو شوگر کے مریض ہوں اور چاہے اس مرض کے خلاف باقاعدگی سے ادویات بھی استعمال کر رہے ہوں۔

شوگر کی بیماری کا ایک اور منفی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ مرض مدافعتی نظام کو کمزور کر دینے کے علاوہ شریانوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور جسم کے مختلف اعضاء کو بھی مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے کسی وائرس کے حملے کی صورت میں ایسے کسی مریض کا جسم بہت تیزی سے بہت زیادہ اور خطرناک حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔

دل کی بیماریاں

ان امراض سے مراد وہ بیماریاں ہیں جن کا تعلق دل کی کارکردگی اور دوران خون کے نظام سے ہوتا ہے اور جن کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں اور پٹھوں تک خون کی معمول کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ دل کی شریانوں میں سے کسی کا تنگ ہو جانا جسم کو پہنچنے والی آکسیجن کی مقدار میں کمی کا سبب بنتا ہے۔

ایسی شریانیں اپنی اندرونی سطح پر مختلف مادے جم جانے کی وجہ سے ان میں سے گزرنے والے خون کی مقدار میں کمی کا سبب بنتی ہے اور کسی نئی عفونتی بیماری کی صورت میں یہ صورت حال جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ دیگر الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ امراض قلب یا دوران خون کے نظام سے متعلق بیماریوں کے شکار افراد پر کسی نئی انفیکشن کا حملہ ان کے پورے جسم کو خطرناک عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

بلڈ پریشر

جرمنی میں بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد کا اندازہ بیس اور تیس ملین کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ کسی عفونتی بیماری کی صورت میں زیادہ بلڈ پریشر کا نتیجہ بھی کئی طرح کے اضافی خطرات ہوتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے جسم کو تازہ خون فراہم کرنے والی شریانوں کو مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچتا ہے۔ فشار خون زیادہ ہو تو دل بھی ہمیشہ بہت دباؤ میں رہ کر کام کرتا ہے۔

اس طرح دوران خون کی کئی بیماریاں جنم لی سکتی ہیں، جو اگر کسی مریض میں پہلے سے موجود ہوں، تو اس پر کسی نئے وائرس کا حملہ مریض کی زندگی کے لیے ایک بڑا امتحان بن جاتا ہے۔ اس طرح کے خطرات سے اکثر مریض شروع میں واقف نہیں ہوتے اور انہیں علم اسی وقت ہوتا ہے جب انہیں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے یا کوئی دماغی شریان دباؤ کی وجہ سے پھٹ جاتی ہے، جسے برین ہیمریج کہتے ہیں۔

سرطان

کسی بھی انفیکشن سے بہت زیادہ خطرہ کینسر یا سرطان کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ سرطانی رسولیوں کے خلاف مختلف اقسام کی تھیراپی کا استعمال جسمانی مدافعتی نظام کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ جرمنی میں ہر روز تقریباﹰ چودہ سو افراد کسی نہ کسی قسم کے سرطان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جرمنی میں کینسر کے کئی لاکھ مریض باقاعدگی سے اپنا علاج کرا رہے ہیں، جس میں کیموتھیراپی بھی شامل ہے۔

اس طرح کی تھیراہی میں سرطانی خلیوں کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن نقصان یہ کہ ایسی تھیراپی صرف سرطانی خلیات پر ہی حملہ نہیں کرتی بلکہ اس سے وہ خلیات اور پٹھے بھی متاثر ہوتے ہیں، جو دراصل صحت مند ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال انسانی مدافعتی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے اور مریض کا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ مختلف امراض کا باعث بننے والے جرثوموں کے لیے نت نئی بیماریوں کو جنم دینا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

پھر کیا کیا جائے؟

بہت اہم بات یہ ہے کہ مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے طرح طرح کے جرثومے یا 'پیتھوجنز‘ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی انسان کے پہلے سے کسی مرض میں مبتلا نہ ہونے کے باوجود اس کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک وہ نیا کورونا وائرس بھی ہے، جو کووِڈ انیس نامی بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ ایسے کسی وائرس کے حملے سے بچنے کے لیے احتیاط اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل ناگزیر ہے۔

گُودرُون ہائزے / م م /  ا ا