1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخجرمنی

پہلی عالمی جنگ کے بعد ہجوم نے کیا کردار ادا کیا؟

13 جون 2022

پہلی عالمی جنگ نے یورپ کو سیاسی طور پر بدل کر رکھ دیا۔ جرمنی سے بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور وائیمار ری پبلک کے نام سے پہلی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ آسٹرو ہنگرین ایمپائر کا خاتمہ ہوا اور مشرقی یورپ کے ممالک آزاد ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4Cc38
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

اس کے ساتھ ہی خاص طور سے جرمنی اور آسٹریا میں نئی سیاسی تحریکیں ابھریں اور معاشرے میں ایک نیا سیاسی شعور پیدا ہوا۔ روسی انقلاب نے محروم طبقوں کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ بھی اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ جنگ کے بعد بالغ رائے دہی کا حق بھی قوموں کا ملا اور ہر سیاسی تحریک میں یہ توقع پیدا ہوئی کہ وہ اپنے نظریات کے تحت سیاسی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

 لیکن جہاں یہ اثرات تھے اس کے ساتھ ہی خاص طور سے جرمنی شکست کی وجہ سے انتشار کا شکار تھا۔ اس صورت حال میں کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ روس کی مدد سے جرمنی میں بھی انقلاب لایا جائے لیکن دوسری جانب انقلاب دشمن تحریکیں بھی موجود تھیں۔

ان میں خاص طور سے وہ فوجی شامل تھے، جو شکست کے بعد واپس آئے تھے۔ ان میں غم اور غصہ تھا اور سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف بھی تھے۔ چنانچہ جب کمیونسٹ پارٹی نے انقلاب لانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف یہ سابق فوجی اور قدامت پرست سیاست دان ایک ہو گئے اور انہوں نے انقلاب کے دو مشہور رہنماؤں روزا لکسمبرگ اور ولیم کنیشٹ کو قتل کر دیا۔ ان کے مخالفین نے پہلے انہیں اذیتیں دیں اور پھر انہیں قتل کر کے ان کی لاشیں دریا میں پھینک دیں۔ اس لیے جنگ کے بعد جرمنی میں، جو کمیونسٹ تحریکیں تھیں، ان کا خاتمہ ہو گیا۔

دوسری جانب آسٹریا بھی اس نظریاتی انتشار سے محفوظ نہیں رہا۔ جنگ کی وجہ سے معاشی طور پر بدحالی تھی۔ عوام کی اکثریت بیروزگار تھی، حکمران طبقے کو اس صورت حال سے نکلنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ جب مسائل حد سے زیادہ بڑھے تو 25 جولائی 1927ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا۔ یہ ہجوم اپنے آپ جمع ہوا تھا۔ اس کو منظم کرنے والا کوئی نہ تھا لہٰذا ہجوم کی جانب سے ریاست کے خلاف اظہار کا یہ طریقہ اپنایا گیا کہ اس نے ’پیلس آف جسٹس‘ کو پٹرول سے آگ لگا دی ۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کی جانب سے فوج کو بلایا گیا تاکہ ہجوم کو منتشر کیا جا سکے۔ اب یہ ریاست اور ہجوم کے درمیان ایک جنگ تھی، جس میں مجمعے پر گولیاں برسا کر انہیں مارا بھی گیا اور منتشر بھی کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد پورے آسٹریا میں مجمعے اور فوج کے درمیان تصادم ہونے لگے، جن میں مجمع زیادہ عرصے تک اپنی تحریک کو جاری نہیں رکھ سکا۔

 لہٰذا آسٹریا کے قدامت پرست حلقوں نے، جو کہ ہجوم اور انقلاب سے خوفزدہ تھے، فیصلہ کیا کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کریں اور انقلابی ہجوم کی سیاست کو کچل کر رکھ دیں۔ اس مقصد کے لیے فنڈز جمع کئے گئے جبکہ فوج اور اس کے اداروں کو مضبوط کیا گیا۔ سیاست کے اس نئے رجحان نے خاص طور سے جرمنی، اٹلی اور آسٹریا میں ترقی پسند قوتوں کا خاتمہ کر دیا اور اس سے فاشسٹ قوتیں ابھریں۔

اٹلی میں میسولینی نے ہجوم کو قوم پرستی، شاندار ماضی اور سنہرے مستقبل کی امید میں متحد کر کے اپنی تقریروں اور جلوسوں کے ذریعے اقتدار کو مضبوط کیا۔ اسی طرح سے جرمنی میں جب 1933ء میں ہٹلر نے اپنی حکومت قائم کی تو اس نے بھی نسل پرستی اور جرمن قوم کی عظمت کے نام پر عام لوگوں کو یہودیوں اور اقلیتوں کے خلاف کیا۔

 مسولینی اور ہٹلر دونوں نے ہجوم کے ذریعے اپنے مخالفوں کا خاتمہ کرایا۔ ہجوم کے یہ گروہ تھے، جو کہ حکومت مخالف لوگوں کی نگہداشت کرتے تھے اور انہیں ڈراتے دھمکاتے رہتے تھے۔ فاشسٹ ہجوم کے لئے آزادی، انصاف اور انسانیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ نہ صرف سیاسی خیالات و افکار پر پابندی لگاتے تھے بلکہ دانشوروں کے لیے بھی لازم تھا کہ وہ فاشسٹ نظریے کی حمایت کریں۔

ان فاشسٹ نظریات کی وجہ سے ایشیا اور افریقہ میں، جہاں جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں، انہوں نے اسی ماڈل کو اختیار کیا اور ہجوم کو استعمال کر کے اپنے خلاف تمام تحریکوں اور قوتوں کو ختم کیا۔

اگرچہ یورپ میں اب فاشسٹ حکومتیں تو نہیں ہیں لیکن اب بھی یہاں پر بہت سی ایسی جماعتیں ہیں، جو نسل پرستی کو اپناتے ہوئے یورپ آنے والے مہاجرین کو ڈراتی دھمکاتی رہتی ہیں۔ فاشزم کے نظریات کہیں پر بھی ہوں، یہ جمہوری روایات اور اداروں کو کمزور کرتے ہیں، نفرت اور تعصب کو پیدا کر کے معاشرے کے رکن کو تباہ کرتے ہیں۔

اس لئے ہجوم اپنی جگہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ وہ اپنے لیڈروں کے زیر اثر ہوتا ہے، جو اس کے جذبات کو مشتعل کر کے خونریزی، قتل عام اور لوٹ مار کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آتے آتے یورپی ہجوم کے بارے میں نئی تحقیقات ہوتی رہیں۔

جمہوری اداروں کے فروغ اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا اور اس وجہ سے ہجوم کی نئی جماعتیں وجود میں آئیں، جیسے کہ مزدور، کاریگر، طالب علم، اساتذہ، خواتین اور کسان تحریکیں۔ اب یہ نئے ہجوم اپنے مطالبات کے لیے جمع ہوتے تھے اور نئی لیڈر شپ کے ساتھ ریاست کو مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ کہیں یہ کامیاب رہے اور کہیں ناکام۔

 ویت نام کی جنگ کا خاتمہ ہجوم کے مطالبات کی وجہ سے ہی ہوا۔ امریکہ کے افریقی باشندوں کو سیاسی حقوق بھی ہجوم کے مظاہروں کی وجہ سے ملے۔ ہجوم کا کلچر آج بھی اُبھرتا ہے اور ناکامی کے باوجود اپنی توانائی نہیں کھوتا لیکن یورپی اور تیسری دنیا کے ممالک کے ہجوم کی ذہنیت میں فرق ہے۔

 اگر ہم یہاں پاکستان کا ذکر کریں تو ہجوم کو کئی شکلوں میں پاتے ہیں۔ ایک بڑا ہجوم تو تبلیغی جماعت ہے، جو سیاست سے دور مذہبی معاملات میں مصروف رہتا ہے۔ پھر ہر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے اپنے ہجوم ہیں، جنہیں وہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے بھی۔ لہٰذا پاکستان کے ان ہجوموں میں نہ تو سیاسی شعور ہے اور نہ ہی یہ اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ ہیں۔ اس لیے یہ ہجوم امن و امان کے لیے ہمیشہ خطرہ رہتے ہیں اور ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں کوئی مثبت کردار ادا کریں گے۔

ہجوم کا کلچر پہلا حصہ

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔