1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان پولیو کے خاتمے میں ناکام کیوں؟

30 مئی 2024

دنیا کے وہ دو ملک جہاں مسلسل کوششوں کے باوجود پولیو کی بیماری کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا، پاکستان اور افغانستان ہیں۔ یہاں پولیو ایک مرتبہ پھر ایک بڑے خطرے کے طور پر سر اٹھا رہا ہے جس سے عالمی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gRyo
Pakistan, Peshawar | Kampagne zur Ausrottung von Polio
تصویر: Faridullah Khan/DW

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے کسی بھی خطے کو اسی وقت پولیو سے پاک قرار دیا جاتا ہے، جب اس خطے کے تمام ممالک میں مسلسل تین سال تک اس بیماری کا کوئی نیا کیس سامنے نہ آئے۔ پاکستان اور افغانستان کئی بار پولیو کے خاتمے کے قریب آنے کے باوجود، اس بیماری کے خاتمے کی منزل سے دور ہو چکے ہیں۔ پولیو ایک ایسی لا علاج بیماری ہے جس سے بچہ عمر بھر کے لیے معذور ہو سکتا ہے، لیکن پولیو سے بچاؤ کے قطرے بچوں کو پلوا کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں 2024 کا پہلا پولیو کیس سامنے آگیا

پاکستان: ویکسین پر شبہات اور سازشی نظریات پولیو کیسز میں اضافے کی وجہ

ماہرین کے مطابق ان دونوں ملکوں میں پولیو سے متعلق غلط فہمیوں، والدین کا بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے گریز اور عوام تک پولیو ویکسین کی محفوظ اور آسان رسائی نہ ہونے سے صورتحال خراب ہو تی جا رہی ہے۔کئی علاقوں میں گنجان آبادی، صحت کی ناکافی سہولتیں اور غربت بھی اس ضمن میں ایک بڑا مئسلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت بھی پولیو کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کمیٹی کے مطابق افغانستان میں پولیو کے پھیلاؤ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی بھی ہو سکتی ہے، جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیچھے افغانستان سے آنے والے متاثرہ لوگ ہیں۔

پاکستان میں ایک پولیو ورکر ایک ریلوے اسٹیشن پر ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔
رواں برس کے پہلے پانچ مہینوں میں پاکستان میں پولیو کے تین کیسز سامنے آ چکے ہیں۔تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

رواں برس کے پہلے پانچ مہینوں میں پاکستان میں پولیو کے تین کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ یہ تینوں کیسز بلوچستان کے علاقے چمن، قلعہ عبداللہ اور ڈیرہ بگٹی میں سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے چھ کیسز سامنے آئے تھے جن میں کے پی کے علاقے بنوں میں تین جبکہ اورکزئی ایجنسی سے ایک اور کراچی سے دو کیسز شامل تھے۔

کسی بھی ملک میں پولیو کی موجودگی کا علم بچوں میں نمودار ہونے والی علامات یا ان کے میڈیکل ٹیسٹوں کے نتائج سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ جن میں بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں وہ پولیو وائرس کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ بڑوں پر اس وائرس کا زیادہ اثر دیکھنے میں نہیں آتا لیکن ان کے پاخانے کے ذریعے جب یہ وائرس سیوریج میں جاتا ہے تو سیورج کے پانی کے نمونوں سے بھی کسی علاقے میں وائرس کی موجودگی کا پتا چل جاتا ہے۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 38 اضلاع میں سال کے پہلے پانچ مہینوں میں سیوریج کے 148 نمونوں میں پولیو کا وائرس پایا گیا، جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 126 تھی۔ سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کے بعض علاقوں کو تو پولیو کا ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے جن علاقوں سے ایسے نمونے ملے ہیں ان میں کراچی، کوئٹہ ، چمن، قلعہ عبداللہ، لاہور اور کے پی کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے قومی ادارہ صحت میں قائم انسداد پولیو لیبارٹری کے مطابق چھ سے 14 مئی کے درمیان کراچی کیماڑی، کراچی ملیر، سکھر، جیکب آباد، حیدر آباد اور لاہور سے لیے گئے سیوریج کے پانی کے آٹھ نمونوں میں پولیو وائرس ملا، جس کا جینیاتی تعلق سرحد پار کے وائے بی تھری اے پولیو وائرس کلسٹر سے بتایا جاتا ہے۔ پاکستانی حکام  کے مطابق یہ وائرس کلسٹر2021 میں پاکستان میں ختم ہوگیا تھا، تاہم گزشتہ سال سرحد پار سے ایک بار پھر پاکستان میں واپس آگیا۔

افغانستان: طالبان کی قیادت میں پولیو مہم کا آغاز

کچھ اسی طرح کی صورتحال افغانستان میں بھی دکھائی دے رہی ہے جہاں سیوریج کے پانی سے ملنے والے پولیو کے مثبت نمونوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں پولیو کی سیوریج میں موجودگی کے مثبت نمونوں میں جون 2023ء سے اب تک دو گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد افغانستان سے کہیں زیادہ ہے۔ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پولیو کی روک تھام کے لیے افغانستان پاکستان سے بہتر نتائج دے رہا ہے کیونکہ وہاں پولیو کے شکار افراد یا سیوریج کے پانی کے نمونوں سے سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد پاکستان سے بہت کم ہے، لیکن پاکستان کے سرکاری حکام اس سے اتفاق نہیں کر رہے۔ ان کے بقول افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پولیو کے ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے کیسز کی درست تعداد سامنے نہیں آ رہی ہے۔

افغانستان میں پولیو سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں کابل، قندھار اور ہلمند شامل ہیں، جبکہ پاکستان میں سیوریج سے پولیو کے مثبت نمونے ملنے کے حوالے سے جو علاقے قابل تشویش ہیں ان میں کراچی، پشاور اور کے پی کے بعض علاقے، کوئٹہ، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ اور ڈیرہ بگٹی وغیرہ شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی محکمہ صحت کے ایک سینئر افسر ڈاکٹر حسن عروج نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں رواں برس سیوریج میں پولیو کے نمونے مثبت آنے کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان نے پولیو کے خاتمے میں کچھ عرصہ پہلے تک شاندار کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن پاک افغان بارڈر پر آمدورفت کی وجہ سے وہاں سے پولیو کا وائرس پاکستان آتا ہے، اور اس وائرس کے حامل لوگ جس جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں سے پولیو کے نمونے مثبت آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن عروج کے مطابق بچوں کو قطروں کے ذریعے دوا پلانے کی بجائے انجکشن کا استعمال زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، بعض اوقات پوری دوا بچے کے منہ میں نہیں جاتی، بعض اوقات نامناسب خوراک، پیچش اور ڈائریا کی وجہ سے دوا بچے کے خون میں شامل نہیں ہو پاتی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جس طرح حکومت نے شناختی کارڈ بلاک کر کے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا شروع کیا ہے، اسی طرح بچوں کو قطرے نہ پلوانے والے والدین کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی بھی کی جانی چاہیے۔  

افغانستان میں ایک پولیو ورکر ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔
افغانستان میں پولیو سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں کابل، قندھار اور ہلمند شامل ہیں۔تصویر: © UNICEF/UN0353280/Shah

محکمہ صحت پنجاب کے ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر مختار اعوان نے بتایا کہ پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے اس ضمن میں تین جون سے سات روزہ پولیو مہم بھی شروع کی جا رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو نے حال ہی میں پاکستان اور افغانستان پر پولیو کے حوالے سے سفری پابندیاں برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے۔ ان پابندیوں کے تحت ملک سے باہر جانے والوں کے لیے پولیو کی ویکسین لینا لازمی ہو تا ہے۔