1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجابی طالبان ہتھیار پھینکنے پر تیار

عاطف بلوچ14 ستمبر 2014

پاکستان طالبان کے ایک طاقتور دھڑے نے اعلان کیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرتے ہوئے ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے پُرامن طریقہ اختیار کرے گا۔ اس دھڑے نے دیگر گروہوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ عسکری کارروائیاں روک دیں۔

https://p.dw.com/p/1DBvB
تصویر: picture-alliance/dpa

ممنوعہ تنظیم تحریک پاکستان طالبان پنجاب کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے ہفتے کے دن جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اسکالرز کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ پرتشدد کارروائیاں ترک کر دی جانا چاہیے۔ پنجابی طالبان کے رہنما نے مزید کہا کہ مسلح جدوجہد درست راستہ نہیں ہے۔

پاکستان میں تحریک طالبان میں درجن بھر سے زائد مختلف گروہ شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان شدت پسند گروہوں کی مختلف کارروائیوں میں تقریبا گزشتہ ایک دہائی کے دوران پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پنجابی طالبان کے اس تازہ اعلان پر ابھی تک حکومت پاکستان یا طالبان کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

Pakistan Anschlag auf ein Kino in Peschawar
پاکستان میں شدت پسند گروہوں کی مختلف کارروائیوں میں تقریبا گزشتہ ایک دہائی کے دوران پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Reuters

عصمت اللہ معاویہ نے کہا ہے کہ اس کا گروہ اب ہتھیار ڈالتے ہوئے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے پر امن راستے اختیار کرے گا، جن میں ’تبلیغ‘ اور فلاحی کام سرفہرست ہوں گے۔ اس جنگجو رہنما نے تحریک طالبان پاکستان کے دیگر دھڑوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیار پھینکتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پر امن راستہ اختیار کریں۔

اس گروہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اسلام اور پاکستان‘ کے مفادات کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہے تاکہ علاقائی سطح پر ابھرنے والی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ ناقدین کے خیال میں پنجاب کے طالبان کی طرف سے تشدد کا راستہ ترک کرنا تحریک طالبان پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو سکتا ہے کیونکہ جنگجوؤں کا یہ اتحاد پہلے ہی اختلافات کا شکار ہوتے ہوئے کمزور ہو چکا ہے۔

قبل ازیں ہفتے کے دن ہی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہوئے ایک بم دھماکے میں تین افراد ہلاک جبکہ سولہ زخمی ہو گئے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ اس حملے میں نیم فوجی دستوں کی ایک گاڑٰی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تاہم اس کارروائی میں متاثر ہونے والے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک شدگان میں دو شہری اور ایک فوجی تھا۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔