1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشتون تحفظ موومنٹ کو درپیش نیا امتحان

18 جنوری 2019

پشتون تحفظ موومنٹ کو مسقبل قریب میں ایک اور اہم امتحان سامنا ہے۔ قبائلی علاقہ جات صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں اور اب ان قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی 23 نشستوں پر عام انتخابات ہونا ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Blfh
Manzoor Pashteen
تصویر: DW/Shah Meer Baloch

اسلام آباد میں ایک دوست کے گھر داخل ہوا تو کمرے میں موجود منظور پشتین زمین پر بچھے کارپٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ اٹھ کر مجھے گلے لگایا اور میرا خیر مقدم کیا۔

کمرے میں بجلی کا ایک ہی بلب جل رہا تھا۔ سردی عروج پر تھی۔ زرا فاصلے پر ایک الیکٹرک ہیڑ چل رہا تھا۔ منظور پشتین لکڑی کی ایک الماری کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔ لکڑی کی الماری پر اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی کلیات پڑی تھی۔ پشتین کے دوست زمین پر بچھے گدوں پر نیم دراز ہو گئے۔

میرے سامنے بالکل سادہ انداز میں بیٹھا چھبیس سالہ منظورپشتین حالیہ سالوں میں پاکستان کے سیاسی افق پر ایک رہنما کی حیثیت سے تیزی سے نمودار ہوا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے پاس پیسہ ہے نہ ہی اثر و رسوخ مگر پھر بھی قبائلی علاقہ جات اور پشتون قوم میں اس کا طوطی بول رہا ہے۔ وجہ بڑی سادہ ہے اور وہ یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران جو نقصانات پشتونوں کو اٹھانا پڑے وہ شاید کسی اور نے نہیں اٹھائے پھر الٹا پشتونوں کو ذلیل و رسوا بھی کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں پشتونوں کی نمائندہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کا دل کسی زمانے میں عوام کے ساتھ دھڑکتا تھا مگر اب اس جماعت کے اکثر مرکزی رہنماؤں پر بھی پیسہ بنانے کے سنگین الزامات ہیں۔ ترجیح جب پیسہ بن جائے تو عوام روٹھ جاتی ہے۔ روٹھی ہوئی پشتون عوام کو منظور پشتین کی آواز سنائی دی تو وہ اس کے پیچھے چل پڑی۔

منظور پشتین نے گومل یونیورسٹی میں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا اور بعد میں  اپنے محسود قبیلے پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے محسود تحفظ موومنٹ قائم کی۔ اس نے تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ جو مظالم اس کے قبیلے کے خلاف بپا کیے گئے تھے دراصل باقی قبائل کو بھی اسی چھڑی سے ہانکا جاتا رہا۔

کراچی میں نقیب اللہ محسود کا بہیمانہ قتل ہوا اتو محسود تحفظ موومنٹ کے نوجوانوں نے اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ کیا۔ قافلہ قبائلی علاقہ جات سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں اسے محسود تحفظ موومنٹ کی بجائے پشتون تحفظ موومنٹ کا نام دے دیا گیا۔ اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے پر پاکستان کے قومی میڈیا کو خبر دینے کی اجازت تو نہ تھی تاہم دنیا بھر میں اس کی بھرپورکوریج ہوئی۔

میڈیا کوریج کے حصول کے لیے بڑی سیاسی جماعتیں بھاری رقوم خرچ کرتی ہیں مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے پاس اس کام کے لیے پیسے نہیں۔ ہوں بھی تو میڈیا کسی اشارے کے بغیر انہیں کسی قسم کی کوریج دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے  کارکنوں نے ان تمام مسائل کا حل بھی نکال رکھا ہے۔  ٹیکنالوجی کے اس دور میں فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کو اپنا ایسا ہتھیار بنایا ہے کہ اب تک کوئی اس کا توڑ نہیں کرسکا۔

Blogger Azaz Syed
اعزاز سیدتصویر: Azaz Syed

پشتون تحفظ موومنٹ کی طرف سے پشتونوں پرظلم بند کرنے کے مطالبے کے پیچھے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اس قوم کو لگنے والے زخم اور بار بار نقل مکانی کی تکالیف واضح طور پر دکھتی ہیں۔

منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے پانچ بہت سادہ مطالبات ہیں۔ اول لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے، دوئم ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے بارے قوم کو سچ بتایاجائے، سوم ان دونوں مسائل کے مستقل حل کے لیے ایک ’ٹُرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن‘ قائم کیا جائے، چہارم قبائلی علاقہ جات سے لینڈ مائینز کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور پنجم کراچی میں قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

 دنیا بھر میں کامیاب رہنماؤں میں تین خصوصیات ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ وہ دولت کےپجاری نہیں ہوتے، دوئم انہیں اپنی اولاد اور خاندان کی فکر نہیں ہوتی اور سوئم یہ کہ وہ اپنے ہدف پر نظر رکھتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس سلسلے میں علم کو اپنی طاقت بناتے ہیں کمزوری نہیں۔ منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما تاحال ان تینوں اصولوں پر پورا اترتے نظر آرہے ہیں۔ وہ دولت سے بے نیاز، خاندان سے ماورا اور مسلسل اپنے مقصد پر نظررکھے ہوئے ہیں۔

سال 2018ء کے عام انتخابات ہوئے تو اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو افراد محسن داوڑ اور علی وزیر نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ جیت ان کا مقدر بنی اور آج وہ پارلیمینٹ میں کھڑے ہوکر پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے ان دونوں سے ملاقات میں انہیں احتیاط کا مشورہ دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ان کے مطالبات کو سمجھتے ہیں۔ جواب میں ان سرپھروں نے کہا کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کرآئے ہیں سچی بات کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔

پشتون تحفظ موومنٹ کو مسقبل قریب میں ایک اور اہم امتحان سامنا ہے۔ تیسویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی علاقہ جات صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں اب اپریل 2019ء میں ان قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی 23 نشستوں پر عام انتخابات ہوں گے۔ اگر پشتون تحفظ موومنٹ باضابطہ طور پر ان انتخابات میں شرکت کا اعلان کردیتی ہے تو اس کی فتع بظاہر یقینی ہے۔  ظاہر ہے اس سارے عمل کے خیبر پختونخوا اسمبلی اور حکومت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے ۔ منظور پشتین سے گفتگو کےدوران میں نے اندازہ لگایا ہے کہ وہ اس سارے معاملے پر مشاورت تو کر رہے ہیں لیکن شاید ذاتی طور پر وہ عوامی زور استعمال کرنے کو ہی مقدم سمجھتے ہیں۔ امید ہے کہ مشاورت سے یہ جو بھی فیصلہ کریں گے، بہتر ہی ہوگا۔

ادھر پشتون تحفظ موومنٹ اورسکیورٹی اداروں کے درمیان  بھی ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ پاکستان میں فوج طاقتور ترین ادارہ ہے، اسے کوئی چیلنج نہیں کرپاتا۔ نوازشریف اور آصف زرداری جیسے لوگ بھی فوج پر تنقید کرتے ہوئے اشاروں کنایوں میں ہی بات کرتے ہیں۔ مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں فوج پر کڑی تنقید اور فوج کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی جاتی ہے۔

دراصل ایسا سب کچھ ان پشتونوں پر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں لگے زخموں کا ردعمل ہے۔ سخت تقاریر اور نعرے بازی کے جواب میں منظورپشتین پر 17 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ اس نوجوان کو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے جوڑنے کی بے بنیاد خبریں بھی چلوائی گئی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ایک قومی ادارہ ہے اس پر تنقید سے گریز کیا جانا چاہیے مگر کیا ہمارے اداروں سے پالیسی سازی میں کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی؟ کیا اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کل بھی ٹھیک تھے، آج بھی ٹھیک ہیں اور آئندہ کل بھی ٹھیک رہیں گے؟ ہرگز نہیں، ہم سب نے غلطیاں کیں ہیں اور ہم سب کو مل بیٹھ کر آئین کو اصول مانتے ہوئے ان کا تدارک بھی کرنا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں سیاسی قیادت کو آگے بڑھ کر منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کو گلے لگانا چاہیے۔ ان نوجوانوں کے مطالبات آئین کے مطابق ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے۔ آج کے دور میں پشتون تحفظ موومنٹ کا عروج پاکستان میں نظریاتی سیاست کے خاتمے کے خیال کی نفی بھی ہے۔  پشتون تحفظ موومنٹ نظریاتی سیاست کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہمیں ان نوجوانوں کو عزت دے کر انہیں سننا ہوگا۔ وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نام نہاد محب وطن بن کر اپنے ہی ہاتھ سے ایک نئے بنگلہ دیش کی بنیاد نہ رکھ دیں۔

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید