پشاور کے بعد کوئٹہ بھی دھماکوں سے گونج اٹھا
5 فروری 2023اس حملے کی ذمہ داری طالبان کی کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئٹہ میں پاکستانی فوج کی چھاؤنی کے موسیٰ چیک پوسٹ پر حملہ بلال منصور نامی خودکش حملہ آور نے کیا ہے۔ اس خودکش حملے کے بعد کوئٹہ کے بارونق علاقے منو جان روڈ پر بھی عسکریت پسندوں نے مقامی شہریوں پر دستی بم سے ایک اور حملہ کیا۔ اس حملے میں ایک خاتون سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔
بلوچستان میں انٹیلی جنس حکام نے دو یوم قبل ایک تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا تھا۔ اس تھریٹ الرٹ میں صوبے کے حساس علاقوں میں عسکریت پسندوں کے مزید حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار زوہیب لاشاری کہتے ہیں کہ عسکریت پسندی کی نئی لہر صوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان ملک کا ایک حساس ترین حصہ ہے۔ یہاں جب بھی بدامنی پھیلتی ہے تو اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔ عسکریت پسند یہاں کے امن کو اپنے عزائم کے لیے سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ قیام امن کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان سے ملک دشمنوں کے عزائم کامیاب نہیں ہو پارہے۔ ملک دشمن عناصر جان بوجھ کر ایسے اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرر ہے ہیں جن سے پاکستان کا امیج بین الاقوامی طورپرمتاثرہونے کا خدشہ ہے‘‘۔
زوہیب کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس اعلاعات پر ہونے والی کارروائیوں کے دور رس نتائج سامنے آئے ہیں ۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ''پاکستان طالبان اور شدت پسند تنظیم داعش نے یہاں پاؤں جمانے کی ہمیشہ سے کوششیں کی ہیں لیکن بروقت اقدامات سے ان کی ہر کوشش ناکام بنائی گئی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کے کئی اہم سرغنہ مارے جاچکے ہیں۔ یہاں بدامنی پھیلانے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عسکریت پسند بلوچستان کو غیرمستحکم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو ایک منصوبے کے تحت نقصان پہنچایا جا سکے‘‘۔
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال پر خطے کے بدلتے ہوئے حالات بھی براہ راست اثر انداز ہورہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' بلوچستان سینٹرل ایشیاء کا گیٹ وے ہے یہاں کی امن وامان کی صورتحال صرف مقامی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کی شورش کی وجہ سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت افغانستان اور ایران میں جو شورش پھر سر اٹھانے لگی ہے اس سے یہ خطہ بھی متاثر ہو گا۔ سرحدوں پر نگرانی کے نظام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ امر یقینا باعث تشویش ہے کہ اچانک شدت پسندی کیوں بڑھنے لگی ہے؟ خیبر پختونخواء اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں حال ہی میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سیکیورٹی معاملات کا حالیہ صورتحال کے تناظر میں از سرنو جائزہ لیا جائے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے شدت پسند تنظیم داعش کے زیر اثر کئی علاقے واپس طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ اس وقت وہاں سے عسکریت پسند محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔ بلوچستان سے متصل سرحدی علاقوں میں بھی ایسے عسکریت پسند دوبارہ پاؤں جمانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ افغانستان میں سابقہ دور کے ٹھکانوں میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے‘‘۔
'دہشت گرد عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘، ڈی آئی جی پولیس
یاد رہے کہ آج کوئٹہ کے بگٹی اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ 8 کا ایک نمائشی میچ بھی کوئٹہ گلیڈئیٹر اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلا گیا۔ میچ کے موقع پر شہر میں سیکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ محمد اظفر میہسر کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں آج پی ایس ایل 8 کے نمائشی میچ کے موقع پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کے غیرمعمولی پلان پر عمل درامدکیا گیا۔
کوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''آج کا دن صوبائی دارالحکومت میں مجموعی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت اہم تھا۔ موثر انتظامات کے باعث ملک دشمن قوتوں کے عزائم کامیاب نہ ہوسکے۔ بگٹی اسٹیڈیم کی سیکیورٹی کے لیے مختلف مقامات پر 3 ہزار سے زائد پولیس کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ اس دوران فوج اور ایف سی نے بھی سیکیورٹی کے معاملات کی نگرانی کی ۔ قیام آمن کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے جو عناصر اس صورتحال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے‘‘۔
اظفر میہسر کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ہونے والے اقدامات میں مقامی شہری بھی بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ صوبے میں سیکیورٹی سے متعلق خدشات دور نہ ہوئے تو سی پیک سمیت دیگر غیرملکی سرمایہ کاری کے منصوبے اس صورتحال سے شدید متاثرہوسکتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل گوادر میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں نے بھی بلوچستان میں سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر شدید تشویش ظاہرکی تھی۔