1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور ميں افغان قونصليٹ کی بندش، تجارت و شہری متاثر

فریداللہ خان، پشاور
11 اکتوبر 2019

پشاور ميں افغان قونصليٹ کی بندش سے افغان مارکيٹ کی ملکيت کا تنازعہ شديد تر ہو گيا ہے۔ مقامی افراد و ماہرين کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف تجارت بلکہ شہريوں کی آمد و رفت پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/3R8am
Pakistan Schließung afghanisches Konsulat in Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں واقع افغان قونصليٹ کو غیر معینہ مدت کے ليے بند کرنے کا اعلان کیا گيا ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر پشاور میں واقع افغان مارکیٹ ميں مقامی انتظامیہ کی جانب سے افغانستان کا پرچم اتارے جانے اور عدلیہ کے فيصلے کے تحت اس مارکیٹ کو ايک پاکستانی شہری کی ملکیت قرار دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں افغان سفارت خانے کا دعوی ہے کہ متعلقہ زمين و جائداد افغان حکومت کی ملکیت ہے۔ اس کے برعکس شوکت جمال نامی پاکستانی شہری نے عدالت میں کيس دائر کیا تھا کہ مذکورہ جائداد زوار حسین نامی شخص کی ہے، جسے بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد کسی اور جائداد کے بدلے میں الاٹ کیا گيا تھا۔

عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس کو فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، جس پر پولیس نے مذکورہ مارکیٹ میں آپریشن کیا اس دوران مارکیٹ سے افغان پرچم بھی اتار ديا گیا۔ اس پر اگلے روز افغان سفیر شکراللہ عاطف مشال نے مارکيٹ ميں دوبارہ جھنڈا لہراتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر جھنڈے کو دوبارہ اتارا گیا، تو پشاور میں افغان قونصليٹ کو بند کر ديا جائے گا۔ جمعہ گيارہ اکتوبر کو افغان قونصل جنرل محمد ہاشم نیازی کا کہنا تھا، ''ہم نے پہلے سے میڈیا کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ اگر افغانستان کے جھنڈے کو اتارا گیا، تو ہم قونصلیٹ بند کر دیں گے۔‘‘ ہاشم نیازی کے مطابق یہ سفارتی اور ہمسایہ ملک کے مابين بہتر تعلقات کے خلاف اقدام ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس مسلئے کا حل، يا تو سفارتی سطح پر نکالا جائے یا پھر دونوں ممالک کے قانونی ماہرین آپس میں بیٹھ کر کوئی حل نکاليں۔ افغان قونصل جنرل کا مزید کہنا تھا کہ  ان کا مطالبہ ہے کہ عدالتی فیصلے کو معطل کیا جائے اور کوئی پر امن حل نکالا جائے۔ ''ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے 'لینڈ مافیا‘ ہے، جسے ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد عزیز ہے۔‘‘

Pakistan Schließung afghanisches Konsulat in Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

افغان مارکیٹ کی زمين کے بارے میں فیصلہ آنے کے بعد اس علاقے میں کئی روز سے کشیدگی جاری ہے۔ پولیس نے اس مارکیٹ میں دکانيں بند کرانے کے ساتھ ساتھ وہاں تجاوزات کے خلاف بھی آپریشن شروع کیا جس پر افغان تاجروں نے احتجاج کیا۔ يہ احتجاج کشیدہ صورتحال میں مزید اضافے کا سبب بنا۔ پشاور میں افغان قونصیلٹ کی بندش سے جہاں عام پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، وہيں دونوں ممالک کے مابین تجارت پر بھی اس اقدام کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔

اس سلسلے میں افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے والے ايک مقامی تاجر اور سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد اللہ شنواری سے ڈوئچے ویلے نے ان کی رائے جاننے کے ليے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''پاکستان اور افغانستان کے مابین نوے فیصد تجارت طورخم کے راستے ہوتی ہے اور یہ تجارت زیادہ تر خيبر پختونخوا اور افغان صوبہ ننگرہار کے درميان ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں پشاور اور افغانستان میں جلال آباد کے قونصل خانے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاجروں کے ليے یہ انتہائی بری خبر ہے۔‘‘ شنواری کا مزید کہنا تھا کہ افغان قونصلیٹ کے اس اقدام سے جہاں تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے وہاں عام شہریوں کی آمد و رفت بھی متاثر ہوگی۔‘‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت میں اضافے کے ليے پاک افغان سرحد پر طورخم کی گزرگاہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین تجارت میں نمایاں اضافہ دیکھنے ميں آیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کے اس فیصلے سے نہ صرف دونوں ممالک کے مابین تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔