1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرسنل سپیس اور معاشرتی دباؤ

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشد
28 اگست 2023

پرسنل سپیس کے بارے میں لوگ جانتے تو ہیں لیکن اس کا خیال نہیں کرتے۔ انہیں دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کا بہت شوق ہوتا ہے۔ انہیں اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہ دخل اندازی کبھی کبھی دوسروں کے گھر تک تباہ کر دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4VaTW
Sidrah Arshad
تصویر: Privat

میرا ایک کاپنگ میکانزم ہے اور وہ یہ ہے کہ میں اپنے والدین کی قبروں پر نہیں جاتی۔ یہ میرا نہایت ذاتی معاملہ ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے میں مجھے یہ تک سننا پڑا کہ شاید مجھے ان کے ہونے ناں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا شاید میں ایک اچھی بیٹی نہیں ہوں۔ ان تمام باتوں اور رویوں کی وجہ پرسنل سپیس کی تعلیم کی کمی اور ٹوہ لینے کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیونکہ جہاں لوگوں کو ذاتی اور نجی زندگی کا نہیں معلوم وہاں کاپنگ میکانزم کیا بلا ہے میں کس کس کو اور کیسے سمجھا سکوں گی۔

شادی نہیں ہو رہی لوگوں کا مسئلہ، بچے ہو نہیں رہے یا کر نہیں رہے لوگوں کا مسئلہ، نوکری کر رہے تب ان کا مسئلہ اور گھر بیٹھے ہیں تب ان کا مسئلہ یہاں تک کہ آپ کی تنخواہ بھی ان کا مسئلہ ہوتی ہے۔ کھانے پینے سے لے کر پہننےاوڑھنے تک، سونے جاگنے سے لے کر سوشل سائٹس کے استعمال تک آپ کا ہر مسئلہ آپ کے ارد گرد رہتے لوگوں کا مسئلہ بھی ہے اور وجہ بہت سادہ پرسنل سپیس کی کمی۔

پرسنل سپیس ہے کیا؟ 

پرسنل سپیس دو الفاظ کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جس کے بارے میں جانتے سب لوگ ہیں لیکن اسے لاگو کرنے پر ایمان محض گورے لائے ہیں۔ ہم اگر باتوں کے شیر ہیں اس لیے ہم ناں تو کسی ایسی بات پر یقین رکھتے ہیں اور ناں ہی کسی ایسے موقف کی تائید کرتے ہیں جس میں اگلے کو اس کی ذاتی یا شخصی آزادی مکمل طور پر دی جا سکے۔

کیا پرسنل سپیس ایک گھر میں الگ کمرے اور دفتر میں الگ ورکنگ سٹیشن تک محدود ہے؟ کیا ہر کسی کی ہر چھوٹی بڑی بات میں ٹانگ اڑانا جائز ہے؟ کیا دوسروں سے متعلق ہر چیز کے معاملے میں رائے دینا ہمارا فرض منصبی ہے؟

پرسنل سپیس یعنی ذاتی یا نجی آزادی یا جگہ ان تمام چیزوں سے بالاتر ہے اگر ہم بات کریں تو کسی شخص کے اتنا قریب ہو کر بات کرنا یا کھڑے ہونا جہاں وہ گھٹن محسوس کرے بھی پرسنل سپیس پر باقاعدہ حملہ کرنے کے مترادف ہے چہ جائیکہ کسی کی ذاتی اور نجی زندگی کے ہر پہلو پر ہر وقت بات کرنا، ذاتیات پر حملہ کرنا، کسی کے طرز زندگی پر ہمہ وقت تنقید اور مفت مشوروں کا انبار۔

کسی کو مسلسل کالز کرنا جب وہ بات ناں کرنا چاہے، کسی کو کریدنا اگر وہ پریشان یا دکھی ہو تو اور پھر ان باتوں کے جواب میں رسپانس ناں ملنے پر غصہ اور خفا ہو جانا بھی شعور میں کمی کی علامت ہے۔

بنیادی وجوہات پر بات کریں تو ہم ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھے ہیں اور موجود جہاں پر ایسی کسی چیز کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ برصغیر میں رہنے کی وجہ سے ثقافتی آداب ہم نے اس حد تک خود میں پروس لیے کہ ہم معاشرتی آداب اور طور طریقے مکمل فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اوپر سے صدیوں سے جاری اس فرسودہ بیانیہ کو بھی ہم نے باپ دادا کی کھوئی ہوئی دولت اور عزت کی طرح سنبھال کر رکھا ہے۔

پرسنل سپیس میں مداخلت دراصل ہماری پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے جب ماں کے لیے بچہ پیدا کرنا کامیابی کی کنجی بتائی جاتی ہے، دوسری مداخلت بچے کے نام رکھنے پر کی جاتی وہ بھی اپنا حق سمجھ کر اور یوں جیسے جیسے وہ بچہ بڑا ہوتا گیا وہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے جس کی اپنی ناں تو کوئی رائے ہے اور ناں ہی اہمیت۔ وہ ڈاکٹر بنے گا یا انجینیئر یہ بھی بچپن سے ڈیسائڈڈ ہوتا ہے، کیا کھانا ہے کیا پینا ہے، سوال اٹھانا ہے یا نہیں یہ سب بھی اس کے بڑے فیصلہ کرتے ہیں اور پھر اسی چکی میں پستا وہ شادی کی عمر تک پہنچنے تک خود بھی ذاتی اور نجی سپیس نامی چیز سے نابلد ہو جاتا ہے اور and the same vicious cycle starts again

ہماری شادیاں اسی معاشرتی دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہیں، ہمارے بچے اسی دباؤ کا نتیجہ ہیں، ہماری تمام زندگی اسی دباؤ کا بوجھ اٹھانے کی کوشش میں گزرتی جاتی کیونکہ اگر ہم پرسنل سپیس کی بات کریں گے تو ہم بدتمیز ہیں بھلا اپنوں سے کونسی سپیس۔ کسی نے شادی نہیں کی وہ بھی لوگوں کا مسئلہ ہے اور کر کے چلا نہیں پائے تو وہ بھی لوگوں کا مسئلہ۔ اگر بچے زیادہ ہیں تو اس پر بھی لوگوں نے کمنٹ کرنا ہے اور نہیں ہیں تب بھی سوا سو اقسام کے مشورے بھی لوگوں نے دینے ہیں۔ اگر آپ پتلے، موٹے، کالے یا گورے ہیں تو اس بات کا فرق آپ سے زیادہ لوگوں کو پڑے گا۔

پھر بعض رشتے ایسے ہیں جن میں پرسنل سپیس کی بات کو گوروں کی پھیلائی ہوئی سازش اور خرافات کا نام دیا جاتا ہے اور اکثر سسنے کو ملتا ہے کہ بھلا والدین اور اولاد، بہن بھائیوں میں، میاں بیوی میں پرسنل سپیس کا کیا کام؟ تو میرے پیارو انہی رشتوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ گوروں کی بنائی سازش بہت ضروری ہے۔ کتنی ایسی شادیاں ہیں جو جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں؟ گھروں اور زمینوں کے نام مقدمے کیوں ہوتے ہیں؟ میاں بیوی میں لڑائی جھگڑوں کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ان تمام چیزوں کی وجہ پرسنل سپیس کا نا ہونا ہے، جب آپ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تو کتنی مرتبہ اپنی مرضی سے سونا جاگنا، کھانا پینا کر سکتے ہیں، شاید ناں ہونے کے برابر، کیا اگر بچپن سے بہن بھائیوں کو ذاتی رائے کے اظہار کا موقع دیا جائے تو بات عدالتوں تک پہنچے؟ کیا میاں بیوی اگر ایک دوسرے کے سروں پرسوار ہونا چھوڑ دیں تو گھر کا ماحول بہتر ناں ہو گا کیا؟

ہمیں پرسنل سپیس کی باقاعدہ تربیت کی شدید ترین ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہے کہ کسی کی جنس، نجی زندگی، اس کا رہن سہن اس کا اٹھنا بیٹھنا وہ آپ کے ساتھ کتنی معلومات شیئر کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے۔ ان سب کو اپنے تک محدود رکھنا اور مفت مشوروں سے باز رہنا بھی اسی تعلیم کا حصہ ہے۔

ہمیں بات کرنے سے لے کر رائے دینے تک، روزمرہ کی زندگی سے لے کر سوشل میڈیا کے استعمال تک ہر جگہ اس تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمیں پبلک سپیس، سوشل سپیس اور انٹر پرسنل سپیس کے بارے میں آگاہی اور شعور حاصل ہو اور ہم اپنے اردگرد اور گھروں میں اسے لاگو کریں۔ اور اگر ہم اپنی ذاتی زندگی، رائے، پسند ناپسند اور طرز عمل کو لے کر کسی کو شائستگی سے بنا ڈرے خاموش کرانا شروع کر دیں تو بہت ساری غلطیاں سدھرنے کا قوی امکان موجود ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشد سدرہ ارشد کا تعلق پاکستان میں لاہور سے ہے اور وہ مختلف سماجی موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔