1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پدرسری معاشرے کو مضبوط کرنے میں عورت کا کردار

5 جولائی 2021

عورتوں کے ساتھ ہونے والے جبروستم کے واقعات میں زیادہ تر مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اگر اسے زاویہ بدل کے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پدرسری معاشرے کو مضبوط کرنے میں خود عورتوں کا کردار غیر معمولی ہے۔ فاطمہ شیخ کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3w3Ed
DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
تصویر: privat

 

تربیت کے مراحل میں مائیں لڑکوں کو یہ بات باور کرا دیتی ہیں کہ لڑکیوں پہ حکم چلا کے ان سے تمام کام کروائے جاسکتے ہیں جبکہ وہ باشعور اور با اختیار ہیں ہر طرح کے فیصلے کے لیے۔

’فیمینزم‘ یا حقوق آزادئی نسواں اور اس جیسی کئی دوسری تحریکوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عام طور پہ خاتون کے ساتھ ہونے والی ہر حق تلفی کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے کیونکہ عورتوں کے حقوق مردوں نے سلب کیے ہوئے ہیں۔

میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے جبر اور ظلم کے بیشتر واقعات میں سو فیصد مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن آج زاویہ بدل کے دیکھتے ہیں کہ پدرسری معاشرے کو مضبوط اور توانا کرنے میں عورتوں کا کیا کردار ہے؟

ٹیکنالوجی اور اسپیس سائنس جیسے جدید شعبہ جات میں عورتیں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی ان گنت گھرانوں میں اولاد ہونے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو نانی، دادی، پرنانی ، پردادی اور ساس سے لے کر محلے کی ہر دوسری عورت اولاد نرینہ کی دعا دیتی ہے۔ ساتھ میں یہ توجیح بھی پیش کی جاتی ہے کہ لڑکا ماں باپ کا سہارا بنے گا، کمائے گا اور گھر کی ذمہ داری اٹھائے گا۔ لڑکیوں کا کیا ہے وہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔

جھانسی کی رانی سے پونم پنڈت تک

گو کہ بیس بائیس سال کی لڑکی جو زندگی میں پہلی بار ماں بن رہی ہے اوراپنے نئے کردار کے بارے میں سہانے خواب دیکھ رہی ہے اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی جاتی ہے کہ بیٹا ہی ہے جس کے بل بوتے پہ وہ سب کے دل جیت سکتی ہے۔ اور اپنے بڑھاپے کا بندوبست کر سکتی ہے۔

اولاد ہونے کے بعد پرورش کے معاملے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ایک خاص قسم کا تضاد رکھا جاتا ہے۔ اور یہ سارے معاملات گھر کی بڑی بوڑھیاں اور بچوں کی مائیں طے کرتی ہیں۔

لڑکیوں کو گھر کے کاموں کی تربیت دی جاتی ہے جن میں صفائی ستھرائی سے لے کر سلائی کڑھائی، کھانا پکانا اور گھرداری کے دوسرے کام بھی شامل ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی تعلیم کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

لڑکوں کو صرف گھر سے باہر کے کاموں کی تربیت دی جاتی ہے۔ جس میں بازار سے سودا سلف لانا شامل ہے۔ بیشتر گھرانوں میں لڑکیوں کا صرف گھریلو امور تک محدود رکھا جاتا ہے جبکہ گھر کا کوئی بھی کام لڑکوں پہ حرام قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ یہ توجیحات بھی دی جاتی ہیں کہ '' مرد گھر کے کام کرتے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ 

خواتین سے متعلق ہمارے رویے کب بدلیں گے؟

اکژر مائیں بیٹیوں سے بیٹوں کے لیے وہ کام کرواتی ہیں جو لڑکے خود با آسانی کر سکتے ہیں۔ '' بیٹا بھائی کو کھانا گرم کر دو، بھائی کے کپڑے استری کر دو، بھائی کو چائے بنا دو‘‘ جیسے احکامات لڑکیوں پہ صادر کیے جاتے ہیں۔

تربیت کے ان تمام مراحل میں مائیں لڑکوں کو یہ بات باور کرا دیتی ہیں کہ لڑکیوں پہ حکم چلا کے ان سے تمام کام کروائے جاتے ہیں۔

گھر کے ہر اہم فیصلے کے موقع پہ لڑکوں کو ساتھ رکھا جاتا ہے اور ان سے مشورہ بھی لیا جاتا ہے جب کہ لڑکیوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ '' تمہیں شادی کر کے دوسرے گھر جانا ہے۔ اگر وہاں ہماری عزت کا بھرم رکھنا ہے تو اپنا منہ بند رکھو اور بڑوں کے معاملات سے دور رہو۔‘‘

گو کہ فیصلہ سازی جیسے اہم مرحلے میں خواتین لڑکوں کے کچے ذہنوں میں یہ بات پیوست کر دیتی ہیں کہ مستقبل میں اہم کاموں کے بارے میں حتمی رائے کا اختیار انہی کوہوگا۔ اور یہ کہ لڑکیوں کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات اور مسائل کے حل کے لیے لڑکوں کو ساتھ رکھ کراور انہیں اہمیت دے کر خواتین ان کی سوچ اور شخصیت کی تعمیر کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی لڑکوں کو یہ بات چھپے انداز میں باور کرائی جا رہی ہوتی ہے کہ لڑکیاں کم عقل ہوتی ہیں اور فیصلہ سازی جیسے اہم کام کا اختیار مردوں کو اپنے پاس رکھنا چاہیے۔

دوسری طرف لڑکیوں کی تربیت صرف بیٹی، بیوی اور ماں کے کردار نبھانے تک محدود کر دی جاتی ہے۔ ان کی انفرادی شخصیت کیا ہے؟ بیشتر ماؤں اور گھر کی دوسری عورتوں نےاس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا ہوتا ہے۔

بھارت: ایک تو لڑکی، وہ بھی بہت ہی چھوٹی اور کمزور

یوں ننھے ذہنوں میں عورتوں کو کمتر سمجھنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے اور پدرسری معاشرے کی سوچ کی ایک اور مضبوط بنیاد خود عورتوں کے ہاتھوں رکھ دی جاتی ہے۔

 بچے کمسنی سے نکل کر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہیں تو مستقبل کو لے کر نئے اور منفرد خواب سجائے ہوتے ہیں۔ کیریئر منتخب کرنے کی بات آتی ہے تو لڑکوں کو مکمل اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جس شعبے میں دلچسپی رکھتے ہیں اسے چن لیں اور اپنا لیں۔ جبکہ لڑکیوں کو صرف مخصوص شعبہ جات چننے کا اختیار اور اُن تک رسائی دی جاتی ہے جن میں سر فہرست ڈاکٹری کا شعبہ ہے۔

اگر کسی لڑکی نے ایروناٹکس، جرنلزم یا آرکیالوجی کا نام لے لیا تو گھر کی عورتیں کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں کہ لڑکی  ناجانے کس صحبت میں رہ رہی ہے بگڑ رہی ہے اور اس کا جلد از جلد بیاہ کر دو۔

یہاں تک کہ بہت سے گھرانوں میں شادی جیسے زندگی کے اہم ترین معاملات میں لڑکیوں کی مرضی پوچھنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر گھر کی خواتین کا ایک دلچسپ جملہ ہوتا ہے۔ '' باپ اور بھائی نے لڑکا چنا ہے۔ خوبیاں دیکھ کر ہی تو راضی ہوئے ہیں‘‘۔

گویا لڑکی نے نہیں بلکہ باپ اور بھائی نے لڑکے کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔

جسم وزیراں کا لیکن مرضی ’غیرت مندوں‘ کی

ہمارے معاشرے کی ان گنت لڑکیاں بیس بائیس سال تک گھٹن سے بھرپور ماحول میں زندگی گزارتی ہیں جہاں شخصی آزادی تو بہت دور کی بات ہے ذاتی فیصلے کرنے میں بھی انہیں خودمختاری نہیں ملتی۔

شادی کے بعد اولاد کی صورت میں جب اس نسل کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آتا ہے تو نئی نویلی مائیں دادی، نانی، ماں اور ساس کے نقش قدم پہ چلتی ہوئے پدر سری معاشرے کی بنیاد میں مزید چند مضبوط اینٹے رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں.

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔