1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پناہ گزین کی کہانی، حقیقت یا افسانہ؟

عاصم سلیم
25 مارچ 2018

جرمنی ميں ايک پاکستانی تارک وطن پر ايک کالعدم تنظيم کا رکن ہونے پر باقاعدہ طور پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ماہرين کا کہنا ہے کہ چند واقعات ميں تارکين وطن پناہ کے امکانات بڑھانے کی غرض سے جھوٹی کہانياں بھی سناتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2uwOR
Deutschland Handys von Flüchtlingen im Visier
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

پاکستانی تارک وطن وقاص اے پر کالعدم تنظيم لشکر طيبہ کا رکن ہونے پر مارچ کے اوائل ميں فرد جرم عائد کی گئی۔ اس بارے ميں اطلاع جرمن وفاقی دفتر استغاثہ نے ايک پريس ريليز کی صورت ميں رواں ہفتے جاری کی۔ جرمن ادارے GBA نے ڈوئچے ويلے سے بات چيت ميں تصديق کی کہ وقاص اے فی الحال حراست ميں نہيں تاہم اسے قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ شہر ڈسلڈورف کی ايک عدالت ميں يکم مارچ کو اس پاکستانی مہاجر پر فرد جرم عائد کی گئی۔

پريس ريليز کے مطابق وقاص اے گوجرانوالہ کا رہائشی ہے اور اس نے اپنے والد کے اصرار پر سن 2010 ميں لشکر طيبہ کی رکنيت اختيار کی تھی۔ شروع ميں وہ صرف جلسے، جلوسوں ميں شرکت کيا کرتا تھا۔ پھر 2014ء ميں اسے اسلحہ چلانے کی تربيت دی گئی اور بھارت کے خلاف ’جہاد‘ کے ليے تيار کيا گيا۔ اس مقصد کے ليے اسے کراچی ميں سرگرم تنظيم کے ايک خفيہ سيل بھيجا گيا ليکن جب اسے شک ہوا کہ اس سيل کے ارکان قتل کی وارداتوں ميں بھی ملوث ہيں، تو اس نے عليحدہ راستہ اختیار کرنے کا فيصلہ کيا۔ اس پر اسے تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ وقاص جنوری سن 2015 ميں کراچی سے فرار ہو کر واپس گوجرانوالہ چلا گيا اور لشکر طيبہ کے ديگر ارکان کی دھمکيوں کے بعد اسی سال اگست ميں جرمنی آ گيا۔

يورپ ميں بہتر مستقبل کی خواہش اور بھيانک حقيقت

دوسری جانب، آسٹريا کے شہر ژالسبرگ ميں ان دنوں ايک سينتاليس سالہ پاکستانی تارک وطن کو بھی کچھ اسی طرح کے مقدمے کا سامنا ہے۔ اس پر سن 1990 سے 2014ء تک لشکر طيبہ کا رکن رہنے کا الزام ہے۔ يہ الزامات اس کی سياسی پناہ کی درخواست ميں درج معلومات کی بنياد پر لگائے گئے ہيں۔ تاہم Salzburg ORF نامی ايک نشرياتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے اوائل ميں عدالتی سماعت ميں غير معمولی پيش رفت ہوئی اور اس شخص نے اعتراف کيا کہ اس نے جو کچھ کہا، وہ سب جھوٹ تھا۔ ملزم کے بقول اس نے يہ سب اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے ليے کيا تاکہ اس کی پناہ کی درخواست پر مثبت فيصلہ آ سکے۔

قبل ازيں ملزم نے بتايا تھا کہ لشکر طيبہ نے اس کی بيوی اور بھائی کو قتل کر ديا۔ جبکہ حقيقت میں اس کی بيوی آج بھی زندہ ہے جبکہ بھائی ايک حادثے ميں مارا گيا تھا، نہ کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں۔ يہ امر اہم ہے کہ ملزم در اصل نومبر سن 2002 ميں يوکرائن آیا تھا، جس کے ايک سال بعد اس نے آسٹريا ميں پناہ کی درخواست جمع کرائی، جسے مسترد کر ديا گيا۔ پھر وہ اٹلی اور فرانس ميں غير قانونی طور پر رہتا رہا اور پھر سن 2014 اس نے دوبارہ ژالسبرگ ميں پناہ کی درخواست جمع کرائی۔ پچھلے سال موسم گرما ميں اس نے لشکر طيبہ کی کہانی  سنائی۔ بعد ازاں پچھلے ہی سال اسے حراست ميں لے ليا گيا اور اب اس کے خلاف مقدمہ جاری ہے۔

اس پاکستانی تارک وطن کے بقول فرانس میں اس کے ايک ساتھی نے اسے يہ مشورہ ديا تھا کہ اس طرح لشکر طيبہ کے نام سے کہانی بنانے سے يورپ ميں پناہ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہيں۔

پاکستانی صحافی تنوير شہزاد نے اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ يہ حقيقت ضرور ہے کہ جنوبی و وسطی پنجاب ميں دينی مدارس کی تعداد ملک کے ديگر حصوں کی نسبت زيادہ ہے اور اسی سبب لوگوں ميں بھی مذہبی رجحان پايا جاتا ہے۔ تاہم شہزاد کا مزيد کہنا ہے اس کا ہر گز يہ مطلب نہيں کہ لوگ ’جنگجو‘ طرز کی سوچ کے حامل ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’يہ حقيقت ہے کہ گوجرانوالہ کے آس پاس کے علاقوں سے ماضی ميں القاعدہ کے ارکان بھی پکڑے جا چکے ہيں ليکن پاکستانی فوج کے آپريشن کے بعد ان علاقوں سے دہشت گرد عناصر کا صفايہ ہو چکا ہے۔‘‘ شہزاد نے البتہ کہا کہ اکثر يہ ديکھنے ميں آتا رہتا ہے کہ امر يکا اور خاص طور پر يورپ ميں سياسی پناہ کے ليے درخواست دينے والے لوگ اس قسم کی من گھڑت کہانياں بيان کرتے ہيں۔

جلال پور جٹاں: ایک ماں کی انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف جنگ