پاکستانی وزیر اعظم کا دورہ ء افغانستان
30 نومبر 2013رواں برس مئی میں وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ اُن کاافغانستان کا پہلا دورہ ہو گا۔ پاکستانی وزیراعظم کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب طویل المدتی سکیورٹی معاہدے پر صدر کرزئی اور واشنگٹن حکومت کے مابین ایک تنازعہ جنم لے چکا ہے۔
افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔ افغان حکومت بھی متعدد مرتبہ اس سلسلے میں پاکستان سے مدد مانگ چکی ہے۔ افغانستان میں امریکی حملے سے پہلے سن 1996 سے 2001ء ایک تک قائم رہنے والی طالبان کی حکومت کو پاکستان کی مضبوط حمایت حاصل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی امن مذاکرات میں پاکستان کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر یا فریق خیال کیا جاتا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے پاکستانی وزیر اعظم نے افغان ہائی پیس کونسل کے ارکان سے بھی ملاقات کی تھی، جسے مثبت قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد حکومت کے مطابق پاکستان میں قید مختلف طالبان رہنماؤں کو بھی افغان حکومت کے کہنے پر رہا کیا گیا ہے۔
جرمنی میں موجود پاکستانی سفیر عبدالباسط کے مطابق صدر کرزئی کے حالیہ دورہ پاکستان میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دونوں ملک مل کر امن مذاکراتی عمل آگے لے کر جائیں گے۔ عبدالباسط کے بقول دونوں ملکوں کے مابین چند ایک اختلافات بھی ہیں لیکن پاکستان کی خواہش ہے کہ یہ امن عمل افغانستان کی سربراہی میں آگے چلے اور اسلام آباد حکومت اس میں صرف ثالث کا کردار ادا کرے۔ ان کے مطابق اس وقت دونوں حکومتیں مثبت چیزوں اور مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نامزد خارجہ سکریٹری کے مطابق پاکستان کے اسٹریٹیجک مفادات بھی اسی میں ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔
پاکستان افغانستان میں قیام امن اور طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے اب تک چار درجن سے زائد طالبان رہنماؤں کو رہا کر چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان میں سے چند ایک طالبان واپس جانے کے بعد پھر سے افغان حکومت کے خلاف جنگ میں مصروف ہو گئے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق آج کی ملاقات میں دونوں رہنما افغانستان میں امن اور مفاہمت کے عمل پر گفتگو کریں گے۔